• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچ رہا ہو ںکہ اقتدار اور حکمرانی کی خود غرضی پر لکھوں یا سیاست میں ایک دو سر ے کی سنگدلی پر قلم آزمائی کروں ،سیاسی دھرنوں پر لکھوں یا بے منزل اور بے مقصد ریلی کے احوال بیان کروں، ستر سالہ آزادی کے جشن کے رنگ بیان کروں۔ یا کشمیر میں جدوجہد آزادی کے کٹھن مراحل اور قربانیوں کی خو نچکا ں کھتا بیان کروں، حکمرانی کے نئے انداز پر طبع آزمائی کروں یا معزولی کے صدمے کا نوحہ لکھوں ۔سڑکوں پر وایلا کرتے ہوئے مظلوم خاندانوں کا دکھ بیان کروں یا عدالتو ں میں وکلاء کے گونجنے والے دلائل لکھوں، بابا اسکرپٹ کی من گھڑت کہانیاں بیان کروں یا آنے والے دنوں کے فیصلوں کے حقائق لکھوں لیکن فیصلہ یہ کرپایا ہوں کہ بساط کے مطابق سب موضوعات پر طبع آزمائی کروں اور اگر کچھ موضوعات صرف نظر بھی کرنا پڑیں تو کوئی مظائقہ نہیں ، سیاست کی سنگدلی کی بات کی جائے تو ان دنوں یہ خود غرضی اور سنگدلی کھلی کتاب اور اخبارات کی چمکنے والے سرخیوں کی طرح عیاں ہے باپ بیٹے کو فیصلوں کی آ زادی اورپارٹی کی کمان دینے کو تیار نہیں ، بھائی بھائی کو اختیارات اور اگلی صف میں کھڑا کرنے کو تیار نہیں، بہن اپنے چچا زاد بھائی کی پروموٹڈ پوزیشن کے خلاف ہے بلکہ اس کھیل میں تو ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں میں ‘‘ بھی ایک ناکارہ ضرب المثل سمجھی جارہی ہے کیو نکہ با دشا ہت کا ایک ہی اصو ل ہے کہ حکم اور کو ر نش صرف با د شا ہ کا ہی بجا لا نا ہو تا ہے با قی تو سب زبا نی جمع خر چ ہو تا ہے ۔ دو سر ی طر ف لمبے دھرنوں کی جگہ اب دھرنوں کا ٹوئنٹی ٹوئنٹی فارمیٹ بھی متعارف کرادیا گیاہے کیونکہ عوام اور پارٹی کارکن اب دھرنوں کے ٹیسٹ میچوں سے اکتا گئے ہیں اور ایسے بھی طویل اور بے نتیجہ دھرنوں کا مستقبل یہی ہونا تھا لیکن ٹوئنٹی ٹوئنٹی دھرنوں کے نتیجہ خیز ہونے کا خطرہ بااتم موجود ہے اقتدار کے اڑن کھٹولے کے سوار جو سکیورٹی کے حصار میں وی آئی پی انکلوژر میں بیٹھے ہیں سمجھ رہے ہیں کہ چھکے کی کوئی گیند ادھر نہیں آسکتی اور یہ ٹیسٹ میچ بھی بے نتیجہ رہے گا لیکن اس بار میچ نتیجہ خیز بھی ہوتا نظرآرہا ہے اور اسکے پرانے ’’چوکوں چھکوں‘‘کی اسکور بک بھی منظر عام پر آنے والی ہے جو بڑی تکلیف دہ ہے ۔
پہلے بیس تیس سال سادگی اور اللہ کے شکر ادا کرنے والی جشن آزادی میں اب پٹا خوں کی گھن گرج اور موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ بھی شامل ہوچکی ہے جشن آزادی میں بھی دھرنوں اور ریلیوں کا رنگ نمایاں ہے نہ جانے آنے والے کل میں کون جشن آزادی کے نئے رنگ متعارف کراتا ہے اور وہ کون سا دن ہوگا جب اس جشن آزادی میں ہمارے کشمیری بھائی بھی پوری طرح شامل ہونگے ۔
باباا سکرپٹ کی من گھڑت باتیں لکھوں تو ’’ریلی کے شوقین رہنمائوں‘‘ کو اس بے لذت گناہ کی ’’افادیت‘‘ کا پتہ چل چکا ہے اس لئے مزید اس شوق کو دُہرانے کی بجائے شاید جلسہ جلسہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دوسرے صوبوں خاص طور پر سندھ اور کے پی کے میں پیش آنیوالی مشکلات کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے ، حکمرانوں کے نئے انداز میں بعض چہیتوں کے پر کاٹنے کو فی الحال ہلکے پھلکے انداز میں لیا جارہا ہے لیکن دلہن کا جوں جوں میک اپ اترے گا، پر کاٹنے والی مشن مزید تیز ہوگی، ضمنی الیکشن میں 120 کا جن بھی خوابوں میں آکر ڈرانے لگا ہے کہ کہیں کی گئی ساری منصوبہ بندی کو گول نہ کرجائے ،لیکن سوے ہوئے محل سے اٹھنے والے بعض جملوں کو معصومیت میں کہے گئے فقرے یا دانستہ کندہ کئے گئے کتبے کے الفاظ سمجھا جائے ،۔سب پہ بھاری اور سیاست میں الہ دین کا چراغ رکھنے والے کی تقریر کو ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘سمجھا جائے یا دل میں بھی وہی ہے جو زبان پر ہے یا پھر ریٹ کا ہیر پھیر ہے۔ لیکن یہ بات عیاں ہے کہ آخر میں سب یہی کنگنارہے ہوں گے کہ’’ اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے‘‘جو بہت مشکل موڑ ہوگا اور گاڑی سنبھالنا بہت ہی مشکل ۔

تازہ ترین