• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

15اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے حسب روایت ایک بار پھر یوم سیاہ مناکر ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندوستان کے پنجۂ استبداد سے نجات چاہتے ہیں۔ بھارتی یوم آزادی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال رہی۔ ہندوستانی فورسز کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود کشمیریوں نے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے زبردست احتجاجی ریلیاں نکالیں اور پاکستانی پرچم اٹھا کر اس بات کا اعادہ کیا کہ جموں وکشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ غاصب انڈین فوج نے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کر کے بڑی تعداد میں مظلوم اور نہتے کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ حتیٰ کہ حریت رہنما یاسین ملک کو بھی گرفتار اور دیگر قیادت کو گھروں پر نظر بند کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں بھارتی فوج نے متعدد علاقوں کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور جگہ جگہ چھاپے مار کر کشمیریوں کو ہراساں کیا گیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ حزب المجاہدین کے آپریشنل کمانڈر یاسین ایتو جو بھارتی یوم آزادی سے دو روز قبل ہندوستانی فوج کے ساتھ جھڑپ میں شہید ہوگئے تھے۔ 15اگست کو ان کی نماز جنازہ میں تاحد نگاہ عوام کا جم غفیر یہ پیغام دے رہا تھا کہ کشمیری عوام اب کسی بھی صورت بھارت کی غلامی میں رہنا نہیں چاہتے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم بہادر کشمیریوں کے حوصلے اور قربانیوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ ہم ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
کشمیری عوام نے بھارتی یوم آزادی کو ’’یوم سوگ‘‘ کے طور پر منایا۔ جموں و کشمیر کے نڈر، بہادر اور غیور عوام نے بھارتی پابندیوں اور اوچھے حربوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور شہید کمانڈر یاسین ایتو کی نماز جنازہ میں بھرپور انداز میں شرکت کر کے عالمی برادری کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ بھارت عالمی سطح پر یہ تاثر دے رہا تھا کہ اُس نے جدوجہد آزادی کشمیر کو دبا دیا ہے اور جموں و کشمیر میں مزاحمت کی تحریک شاید دم توڑ چکی ہے مگر کشمیری عوام کے جذبوں اور ولولوں نے ہندوستانی حکمرانوں کے جھوٹے دعوئوں کی نفی کردی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی یوم آزادی کے موقع پر یوم سیاہ منایا بلکہ یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام ہر سال14اگست کو پاکستان کے جشن آزادی کو شایان شان طریقے سے مناتے ہیں اور 15اگست کو مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں موجود کشمیری بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ وہ اس موقع پر ہندوستان سے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال 26جنوری کو بھارتی یوم جمہوریہ پر بھی مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی14اگست کو پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر جموں و کشمیر میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار دکھائی دی۔ کشمیری مرد و خواتین، بچے اور بالخصوص طالبات پاکستان زندہ باد اور بھارت مردہ باد کے نعرے لگا کر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے رہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بھارتی حکومت گزشتہ 70سالوں سے جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کررہی ہے مگر وہ عملاً ناکام ہوچکی ہے۔ ہندوستان فوج کے انسانیت سوز مظالم ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ معصوم اور بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی سیکورٹی فورسز پیلٹ گنوں کا بے رحمی سے استعمال کررہی ہے۔ پیلٹ گنوں سے فائرنگ کے نتیجہ میں اب تک سینکڑوں کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی بھارتی فوج کی جانب سے پیلٹ گنوں کے استعمال پر سخت احتجاج کیا ہے مگر بھارتی حکومت کی بے شرمی اور ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اس ظالمانہ طرزعمل سے باز نہیں آئی اور پیلٹ گنوں کا استعمال مسلسل جاری ہے۔ 1990کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں خاصی تیزی آچکی ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت سے جہاد کشمیر کو نئی زندگی ملی ہے۔ آئے روز ہزاروں کشمیری عوام گھروں سے نکل کر سڑکوں پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین سمت دیگر عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟ اس بار مقبوضہ کشمیر میں 14اگست کو جشن آزادی کے موقع پر مختلف تقریبات میں قومی ترانہ بھی پڑھا گیا۔ جموں کشمیر کی آزادی اب نوشتۂ دیوار ہے۔ ہندوستان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب اُسے جموں و کشمیر کے عوام کی پکار کو سُننا ہو گا اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دینا ہوگا بصورت دیگر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہوسکے گا۔
برصغیر کی تقسیم کو70سال گزر چکے ہیں مگر مسئلہ کشمیر ابھی تک جوں کا توں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان ہمیشہ مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر ٹال مٹول کرتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہندوستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے گا لیکن بعد میں وہ اپنے وعدوں سے منحرف ہوگیا۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت پر کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دبائو نہیں ڈال رہی بلکہ الٹا امریکہ، اسرائیل اور یورپی ممالک انڈیا کی سرپرستی کررہے ہیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر لارڈ مائونٹ بیٹن اور ہندوستانی قیادت کی گھنائونی سازش کے نتیجے میں جموں و کشمیر پر بھارتی افواج نے قبضہ کر لیا تھا۔ اب سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن بھارت کا وہاں اب بھی غاصبانہ قبضہ برقرار ہے۔ اقوام متحدہ سے توقع تھی کہ وہ جموں و کشمیر کے دیرینہ معاملے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی ادارے نے فلسطین اور کشمیر کے ایشوز پر مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور ابھر سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی کیوں نہیں مل سکتی؟ یہ مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے دہرے معیارات ہیں جن کی وجہ سے اس وقت عالمی امن خطرے میں ہے۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے عوام کے ساتھ یہ ناروا ظلم روانہ رکھا جاتا اور انہیں عدل وانصاف کے تقاضوں کے تحت آزادی دے دی جاتی تو آج دنیا کے حالات مختلف ہوتے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے سات عشرے گزر چکے ہیں۔ اب ہماری سیاسی قیادت کو یہ طے کرنا چاہئے کہ ہم نے سب سے پہلے اپنے اہم قومی ایشوز کو حل کرنا ہے اور انہیں اولین ترجیح دینی ہے۔ اس وقت خطے کا سب سے بڑا مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ جب تک بھارت جموں و کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ ختم نہیں کرتا اُس وقت تک پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بھی معمول پر نہیں آسکتے۔ ماضی میں بھی ایسے کئی تجربات کئے گئے کہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت رکھ کر یکطرفہ دوستی اور تجارت کی بات کی گئی مگر ہندوستان نے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا بلکہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کشمیر کا مقدمہ کمزور کرنے کا ہمیں یہ نقصان ہوا کہ بھارت آبی جارحیت پر اتر آیا اور اس نے پاکستان کی طرف آنے والے دریائوں پر چھوٹے بڑے کئی ڈیم تعمیر کردیئے ہیں۔ سیاچن کا علاقہ بھی انڈیا کے قبضے میں ہے۔ اگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ وہ خطے میں ترقی وخوشحالی کا سفر طے کرے تو اُسے اپنے موجودہ رویئے میں تبدیلی لانا ہوگی۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان اپنے اندر لچک پیدا کرے اور ہندوستان بغیر لچک اختیار کئے ہم سے راہ و رسم استوار کرنے کی خواہش کرے۔

تازہ ترین