• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارتی اداکار اوم پوری پہلی مرتبہ پاکستان آئے تھے ۔ہم دونوں لاہور مال روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھارہے تھے ۔اوم پوری نے مجھے بتایاکہ انہیں چیف منسٹر ہاوس سے چائے پر بلایا گیا ہے اور اب مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہوگا۔میں نے اپنے بھارتی سجن کو کہاکہ پردھان منتری نے آپ کو بلایاہے لہذا آپ جائیں مجھے اس ٹی پارٹی میں ’’جمعہ جنج نال ‘‘ نہ بنائیں ۔اوم پوری پکے پنجابی اورجذباتی انسان تھے بولے ’’اوئے بھائی صاحب اسی تہاڈے لئی مہاراشٹریہ تو لہور آئے بیٹھے آ ں تے تسی نخرے کررہیے او‘‘(ہم آپ کے لئے مہاراشٹریہ سے لاہور آئے بیٹھے ہیں اور آپ نخرے کررہے ہو)۔میں نے اپنے بزرگ بھارتی دوست کے اس طعنے پر فوراََہتھیار ڈال دئیے اوراسکے ہمراہ چیف منسٹر ہائوس چل دیا۔ ماڈل ٹائون پہنچنے پر پتہ چلاکہ چیف منسٹر میاں شہباز شریف کو پرائم منسٹر میاں نوازشریف نے ایک ارجنٹ میٹنگ پر بلایاہے لہذا اب اس ٹی پارٹی کے روح رواں ’’ڈپٹی چیف منسٹر ‘‘ حمزہ شہباز ہیں۔ ان دنوں ڈپٹی پرائم منسٹر کے لئے بھی مریم نواز کی بجائے حمزہ شہباز کانام ہی گونجتاتھا۔ آنجہانی بھارتی اداکار ماڈل ٹائون میں واقع اس کارپوریٹ چیف منسٹر ہائوس کے احاطہ میں تھوڑی دیر تک ہی رہے ۔ اوم پوری ایک حساس انسان تھے ، اپنی فطری ذہانت اور بطور اداکار مشاہدہ سے تجزیہ اخذکرنے کی قوت بھی رکھتے تھے۔حکمرانی کے ٹھاٹ باٹ ، غیر معمولی پروٹوکو ل اور حمزہ شہباز سے گپ شپ کے بعد پاکستان کے سیاسی نظام اور اس پر جلوہ افروز حکمران ایلیٹ کے حوالے سے اوم پوری نے جو دلچسپ تبصرہ کیا وہ مجھے بھولتا نہیں ہے ۔
ایک گھنٹہ اور پندرہ منٹ کے بعد ہم اقتدار کے سومنات سے باہر آچکے تھے۔ حکمرانی کے آسمانوں سے جب ہم نے زمین پر قدم رکھا تو میرے بھارتی دوست نے کہاتھاکہ ’’چلیں آج یہ تو پتہ چلاکہ دونوں ملکوں کی حکمران ایلیٹ ایک جیسی نااہل ہے ‘‘۔اوم پوری کا کہنا تھاکہ انہیں بھارتی حکمرانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ان کا یہ تاثر ہے بھارت میں لوگ سیاست اور سرکار میں اسلئے آتے ہیں کہ ’’راج نیتی ‘‘(حکمرانی ) جیسا بزنس اختیار کیاجاسکے ۔اوم پوری اگرچہ ہمارے چیف منسٹر ہائوس میںبہت تھوڑی دیر رہے مگرانہوں نے دیگ سے دانہ چکھ لیاتھا۔حمزہ نے بھارتی مہمان سے کہاکہ وہ اُن سے بہت اہم سوال پوچھنے والے ہیں ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا۔سوال یہ تھاکہ آپ کی نظر میں امیتابھ بچن اور دلیپ کمار دونوں میں سے کون بڑا اداکار ہے؟ یہ سوال سنتے ہوئے اوم پوری نے اندازہ لگالیاکہ صاحب بہادر فنون لطیفہ ، اداکاری اور اس سے جڑے حفظِ مراتب سے یکسر بے بہرہ ہیں۔ اس لمحے میں نے سوچا اداکاری کے سلیبس کے اس بنیادی سوال کا جواب تو میری بیٹی کو اس وقت بھی معلوم تھا جب وہ پرائمری کلاسز میں تھی۔بہرحال اوم پوری نے حمزہ کو وضاحت کے ساتھ سمجھایاکہ دلیپ کمار نے فنِ اداکاری کے اپنے اسلوب سے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیاہے ۔خاص طور پر اداکاری کے طالب علموں نے ان سے بہت سیکھا ہے اور امیتابھ بچن ان متعدد فنکاروں میں شامل ہیں جن کی انسپائریشن دلیپ کمار بنے ہیں۔اس نشست میں حمزہ نے اوم پوری پر انکشاف کیاکہ انہیں اوراہلِ خاندان کو ان کی فلم ’’گپت ‘‘ (چھپا سچ) بہت پسند ہے۔اوم پوری بنیادی طور پر متوازی سینما کے آرٹسٹ تھے جن کا نظریہ تھاکہ سینما کے ذریعے معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے ۔وہ کمرشل اور روایتی مصالحہ فلموں کے مخالف تھے مگر بعدازاں معاشی مجبوریوں کے تحت انہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کئے لیکن انہیں اپنے کیرئیر میں ’’گپت‘‘ اور ’’دبنگ ‘‘ جیسی فلمیں کرنے پر شرمندگی تھی۔ اوم پوری نے معذرت خواہانہ انداز میں کہاکہ مذکورہ فلمیں انہوں نے محض اپنا گھربار اور کچن چلانے کے لئے کی تھیں ۔ اوم پوری نے مجھ سے اپنے تاثرات بیان کئے کہ حمزہ نے جب کہاکہ انہیں اور فیملی کو ان کی ایک فلم بہت پسند ہے تو ان کے دماغ میں CHARLIE WILSON,S WAR آئی۔ ہالی وڈ کی اس فلم میں اوم پوری نے جنرل محمد ضیاالحق کا کردار نبھایاتھا۔ جنرل ضیاکا کردار سمجھنے کے لئے اوم پوری نے مرحوم کے منہ بھولے بیٹے شتروگھن سنہا سے کئی ایک ملاقاتیں کی تھیں۔ایک دلچسپ بات یہ کہ جنرل ضیاکا کردار ادا کرنے کے لئے انہیں سونے کا دانت بھی بنوانا پڑاتھا۔
یہ انکشاف اوم پوری کے لئے بڑادلچسپ تھاکہ جنرل ضیاکی اہمیت ہمارے حکمران خاندان کے لئے ایک MENTOR(سرپرست)کی رہی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے مسائل کی وجہ سیاسی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو قراردیا جاتاہے۔ ظاہری طور پر بھارتی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور دکھائی دیتی ہے لیکن بھارت میں بھی ہمیں اپنے جیسے مسائل دکھائی دیتے ہیں ۔اس مماثلت کا تجزیہ کسی دوسری نشست میں کریں گے۔بھارت میں بنائی جانے والی اکثر فلموں کا موضوع پالیٹکس اور راج نیتی ہوتاہے۔ بھارتی ہدایتکار پرکاش جھا کی فلم ’’راج نیتی ‘‘ کاذکر کریں تو یوں لگتاہے کہ قومی سیاست کی جھلکیاں دیکھ رہے ہوں۔اس کے کردار کرپٹ اور نااہل دکھائے گئے ہیں۔وہ الیکشن جیت کر عوام کے ووٹ اور مینڈیٹ کو اپنے جائز اورناجائز کاروبار کے لئے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کا ایک کریکٹر ایسا بھی ہے جو اپنی سیاسی پارٹی میں ہی ایک خوبرولڑکی سے خفیہ دوستی رکھے ہوئے ہے ۔لڑکی تعلقات کے عوض پارٹی ٹکٹ کا مطالبہ کردیتی ہے ۔ سیاستدان ٹال مٹول سے کام لیتاہے جس پر وہ اپنے افیئر کو میڈیا کے سامنے لے آتی ہے۔فلم میں دکھایاگیاہے کہ اپوزیشن کے کچھ لوگ اس لڑکی کو روپیہ پیسہ دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی فائدہ بھی پہنچاتے ہیں۔کچھ بات حالات حاضرہ پر بھی کرلیتے ہیں۔زرداری صاحب نے کہاہے کہ نوازشریف کو پیپلز پارٹی سے ریلیف نہیں ملے گا۔17اگست بروز جمعرات کی رات لاہور بلاول ہائوس میں آصف زرداری اور بلاول سمیت لگ بھگ پوری پیپلز پارٹی سے ملاقات ہوئی۔جس میں اعتزاز احسن ،فرحت اللہ بابر، قمرزمان کائرہ ، شیری رحمان،ندیم افضل چن اورنیر حسین بخاری سمیت دیگر شامل تھے۔بلاول ہائوس میں صرف چند ایک سینئرصحافیوں اوراینکرز کو مدعو کیاگیاتھاجن میں سے اکثر نے زرداری صاحب اور بلاول سے جو سوالات پوچھے وہ یہ تھے کہ کیا میاں صاحب کسی سازش کا شکار ہوئے ہیں؟کیا وہ درست کہتے ہیں کہ احتساب کے نام پر انہیں ٹارگٹ کیاجارہاہے ؟کیا ان کی نااہلی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے؟کیاایسا ممکن ہے کہ کسی مقام پر جمہوریت کی بقا کے لئے آپ کو نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑے تو آپ پیچھے نہ ہٹیں ؟زرداری صاحب اور بلاول نے جو کہااس کامجموعی تاثر یہی تھاکہ آنے والے دنوں میں وہ پاکستان کی سیاست میں نوازشریف کا کردار نہیں دیکھتے۔آصف زرداری نے کہاکہ ہم سب بھگت چکے ہیں اور میاں صاحب کا حساب شروع ہوچکادیکھیں بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہاکہ میاں صاحب کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔ اس پر ایک اسمارٹ اینکر نے یہ ڈائیلاگ بولاکہ یہ تو ممکن ہے اس بار وہ پتلی گلیاں بند کردی گئی ہوں جن میں سے یہ ہمیشہ نکل جایاکرتے تھے۔یہ سنتے ہوئے بلاول اور زرداری دونوں معنی خیز اندازمیں ہنس دئیے۔

تازہ ترین