• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پاکستان میں سول بالادستی کی بات پورے زور شور سے جاری ہے ،اس کا مطلب ہے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی۔یاد رہے جمہوری نظام مختلف سماجوں اور ساری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور یقینا پاکستانی عوا م بھی اس کے ثمرات سے مستفیدہونا چاہتے ہیںتاکہ یورپ کی طرح یہاں بھی ریاست اور فرد کا رشتہ استوار ہوسکے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ نظام کسی ارتقائی عمل سے نہیں گزرا لیکن دنیا میں اس کا اولین تصور بھی آج سے تین ہزار سال پہلے یونان کی شہری جمہوریتوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔پھر یہ نظام بہت سارے ندی نالوں کو اپنے اندرسموتے ہوئے بادشاہت اور کلیسا کے اداروں کی موجودگی میں علامتی طور پر یورپ میں اپنی شکل وضع کرتا ہے۔ 15جون 1215ء کو میگنا کارٹا کی صورت میںبادشاہت اور اشرافیہ کے درمیان پہلی دستاویز حکومت کا نظم و نسق چلانے کے لیے نافذ کی گئی۔اس کا اصل مقصد تو اشرافیہ کے حقوق کا تحفظ تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس دستاویز میں شہری آزادی کی شقیں شامل کی گئی تھیں۔میگنا کارٹا ہی وہ پہلی بنیادی دستاویز ہے جس نے جمہوریت میں پارلیمانی نظام کی بنیاد ڈالی۔پھر1618سے لے کر1648تک یورپ میں تیس سالہ فرقہ وارانہ جنگ نے بہت تباہی مچائی جس میں تقریبا 80لاکھ لوگ مارے گئے۔اس جنگ سے ماسوائے تباہی کے جو ایک فائدہ سماج کو ہوا کہ اس کے خاتمے پر عقائد سے جدا ایک قومی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی۔یہاں سے یورپ جدید جمہوریت کی طرف گامزن ہوتا ہے۔یہاں یہ بات بھی نظر اندازنہیں کی جاسکتی کہ اس سماجی تبدیلی کے حصول میں یورپ کے دانشوروں نے بھی اپنی جانوںکی قربانیاں دیں۔ان قربانیوں ہی کا ثمرہے کہ برطانیہ میں ایک پارٹی صرف ایک ممبر کی اکثریت کی بنیاد پر اپنی حکومتی مدت باآسانی پوری کرتی ہے اور کوئی بھی کسی کی وفاداری تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا۔اس کو کہتے ہیں ارتقائی عمل کا ثمر جہاں سماج خود اچھی روایتوں کا امین ٹھہرتا ہے۔جمہوریت کے اس سفر کو انقلاب فرانس آگے بڑھاتا ہے اور امریکہ کا اعلان آزادی انسانی مساوات کا درس دیتاہے۔
یہاں میں نیلسن منڈیلا جوکہ بیسویں صدی کا سب سے بڑاسیاسی لیڈرتھا کا ذکرضرور کروں گا جس نے جمہوری ارتقائی عمل کو تیسری دنیا میں تقویت دی۔ سائوتھ افریقہ میں سفید فام اشرافیہ نے حکومت پر قبضہ کیاہواتھا اور سیاہ فام کو تیسرے درجے کے شہریوں کے حقوق بھی نہیں دے رکھے تھے۔اس دوران نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے ستائیس سال جیل میں گزارے میں نے کیپ ٹائون کے ساحلی جزیرے ،روبن آئی لینڈ پر وہ چھوٹا سا قید خانہ بھی دیکھا ہے جس میں نیلسن منڈیلا نے اپنی قید کا زیادہ تر حصہ گزارا۔اُنہیں دن میں صرف محنت مشقت کے لئے اور وہ بھی پتھر توڑنے کے باہر نکالاجاتا تھا لیکن ان حالات میں بھی نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھیوں کے سیاسی شعور کا اندازہ لگائیں کہ انہوں نے ناخواندہ سیاسی ورکروں کو تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ ایک سیاسی ورکر نے جیل سے نکلنے کے بعد گریجویشن کا امتحان پاس کیا اور بعد میں جنو بی افریقہ کا نائب صدر بنا ۔ایک ایسے معاشرے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد سفید فام کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا جو انہوں نے بہت عرصے تک سیاہ فام کے ساتھ روا رکھالیکن ہوا اُ س کے بالکل برعکس کیونکہ نیلسن منڈیلا کو ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرناتھا جو نفرت سے پاک ہو اور جہاں ہر شخص کو رنگ نسل سے بالاتر ہوکر اس کے حقوق مل سکیں ۔
نیلسن منڈیلا نے ٹروتھ کمیشن کے ذریعے تمام لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اس کمیشن کے سامنے سچائی کے ساتھ اپنے مظالم کا ذکر کریں تو ان کو معاف کردیا جائے گا کسی اور معاشرے میں اور وہ بھی تیسری دنیا کے معاشرے میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں ۔یہ وہی لیڈر کرسکتے ہیں جن کا وژن بڑا ہوتا ہے ۔امریکی صدر کلنٹن نے سائوتھ افریقہ کے دورے کے دوران جب سائوتھ افریقہ کے کیوبا کے ساتھ تعلقات پرتنقید کی تو نیلسن منڈیلا نے دوٹوک الفاظ میں کلنٹن کو کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی پر آپ کو نکتہ چینی کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور یہ کہ ہماری خارجہ پالیسی اپنے سماجی انٹرسٹ کے مطابق ہوگی نہ کہ آپ کے۔آج تیسری دنیا تو چھوڑیں یورپ کے ممالک بھی امریکہ کے تسلط سے باہر نہیں نکل سکے۔
آج پاکستان کو بنے ستر سال ہونے کو ہیں لیکن جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکی۔ایسا لگتا ہے کہ عوام ،سول او ر ملٹری بیوروکریسی اورعدلیہ سب الگ الگ سیاروں میں رہتے ہیں اور ان کا پاکستانی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔صرف جمہوری نظام ہی ان سب اداروں کو ایک صفحے پر لاسکتا ہے۔
یورپ میںجہاں ہزار سال کی متواتر جمہوری حکومتیں رہی ہیںوہاں پر بھی کرپشن کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوپایا ہے لیکن بہرحال انہوں نے دوایسے اداروں کی تعمیر کی یعنی عدلیہ اور میڈیا،جنہوں نے کرپشن کو ایک حد میں مقید کررکھا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک وزیراعظم کو ہٹانے سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گایا اس کے لئے ادارہ سازی کی ضرورت ہے۔یورپین سماج سے تو یہ نظر آتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ادارہ سازی کی ضرورت ہے جو ایک مسلسل عمل ہے جس کی تکمیل کے لئے سینکڑوں سالوں کی ریاضت کی ضرورت ہے اور پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارا معاشرہ قانون سازی و ادارہ سازی میں کسی بانجھ پن کا شکار ہوگیا ہے یہی معاشرہ ہے جہاں 1973ء کاآئین بنایا گیا ۔این ایف سی ایوارڈ ،اٹھارویں ترمیم،جیسے معرکتہ لآرا قوانین بنائے گئے اسی معاشرے میں موٹروے پولیس کا ادارہ بھی قائم ہے اور بلوچستان میں صحت کابجٹ 3فیصد سے بڑھا کر 18فیصد اور تعلیم کا بجٹ4فیصد سے26فیصد تک بڑھانے کے ساتھ ساتھ6یونی ورسٹیاں اور 3 میڈیکل کالج اور فاٹا کی اصلاحات اپنی آخری شکل اختیار کرچکی ہیں۔
یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف دونوں نے آمروں کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور جمہوری عمل سے کندن ہوکر آج نوازشریف انہی قوتوں کے خلاف نبرد آزماہے ۔آج اس مو قع پر سینیٹ کے چیئر مین اور نواز شریف کا یہ بیان بہت خوش آئندہے کہ میثاق جمہوریت پر سب جماعتیں اکھٹی ہوں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ضیا دور کی تمام ترامیم آئین سے نکال دی جائیں اور غیر مسلموں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ۔مزدوروں اور کسانوں کو بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے ۔انتخابی اصلاحات سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق ہوں اور ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر اس میں جاگیرداروں،سردارو ں اور خوانین کوبھی شامل کیا جائے تاکہ پاکستان میں اشرافیائی جمہوریت ،عوامی جمہوریت کا روپ دھار سکے۔یہی ایک طریقہ ہے جس سے سول بالادستی کے تصور کوآگے بڑھایا جاسکتاہے۔ مگر اس مسلسل عمل کے دوران ہمارا یقین جمہوری نظام پر لامتزلزل ہونا چاہیے اور دیرپا سماجی تبدیلی کے اس عمل کے دوران کہیں بھی قدم و نظریات ڈگمگانے نہیں چاہئیںکیونکہ اسی مسلسل عمل کے ذریعے ہی ہم پاکستان کو ترقی و امن کی شاہراہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔یاد رہے کہ یورپین تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاست اور سیاسی جماعتیں ہی ہیں۔جوکہ ایک مسلسل جمہوری عمل کے ساتھ ساتھ ارتقا پزیر ہوتی ہیں۔

تازہ ترین