• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی مستقبل کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی ، اس کا اندازہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس پریس کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے تین اہم باتیں کی ہیں ۔ آصف علی زرداری نے ایک بات تو یہ کی ہے کہ وہ مستقبل کی سیاست میں شریف خاندان کو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دوسری بات یہ کی ہے کہ میں کس طرح یقین دلاؤں کہ نواز شریف کے ساتھ مفاہمت نہیں کر رہا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے والد کی اس بات کو مزید واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف خاندان اگر پیپلز پارٹی کی طرف سے کوئی ریلیف چاہتا ہے تو اسے پیپلز پارٹی سے ریلیف نہیں ملے گا ۔ بلاول بھٹو کی زرداری نے تیسری بات بھی کی ہے اور وہ بھی بہت اہم ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں صرف دائیں بازو کی سیاست رہی تو بہت برا ہو گا ۔ دونوں رہنماؤں کی یہ تین باتیں پاکستان کی مستقبل کی سیاست کی نشاندہی کر رہی ہیں ۔ وہ کس طرح ؟ اس سوال کا جواب پاکستان میں رونما ہونے والے بعض واقعات کے تناظر میں حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ وہ شریف خاندان کو مستقبل کی سیاست میں نہیں دیکھ رہے ہیں ، محض پیش گوئی نہیں ہے بلکہ یہ ان کا معروضی تجزیہ ہے ۔ جو لوگ پاکستان کی سیاست کی حرکیات ( Dynamics ) اور پاکستانی ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ )کی کیمیا ( Chemistry ) کو سمجھتے ہیں ، وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مستقبل میں شریف خاندان ( Sharif Political Dynasty ) کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے ۔ جب متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے قائد الطاف حسین پر عدالت کی جانب سے پاکستانی میڈیا پر پابندی عائد ہوئی اور ایم کیو ایم پاکستان قائم ہوئی تو اس وقت ہی کچھ حلقوں نے پیش گوئی کر دی تھی کہ اب ’’ مائنس ون ‘‘ کا فارمولا دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی استعمال ہو گا کیونکہ الطاف حسین پاکستانی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے طویل عرصے تک سب سے قریبی اتحادی رہے ہیں ۔ الطاف حسین نے اچانک پاکستان کے خلاف باتیں کیوں شروع کر دیں اور ان کے وفادار ساتھیوں نے ان سے علیحدگی کیوں اختیار کر لی ؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام مل گیا تھا کہ اگر الطاف حسین مائنس ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان کے دیگر سیاست دان کیوں نہیں ہو سکتے ۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مائنس ہونے کے اسباب اگرچہ مختلف ہیں لیکن یہ اسباب بہت ٹھوس ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کوئی عوامی اور سرکاری عہدہ رکھنے کے لئے بھی نااہل ہو چکے ہیں او رپارٹی قیادت بھی ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے ۔ جن لوگوں نے شاہی یا سیاسی خانوادوں کی تاریخ پڑھی ہے ، وہ جانتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اگر حکومت اور سیاسی جماعت کی مسند اپنی اولاد کو منتقل نہیں کر سکے تو وہ اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کو بھی یہ مسند نہیں سونپیں گے ۔ اس طرح شریف خانوادے ( Dynasty ) کا سیاسی کردار تقریباً ختم ہو جائے گا یا پاکستان کی سیاست میں اس کی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہے گی ۔
یہ سلسلہ شریف خاندان تک نہیں رکے گا ۔ قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف ناجائز اثاثہ جات بنانے کا کیس دوبارہ کھول لیا ہے ۔ نیب نے گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں کے دوران سندھ میں کچھ اہم مقدمات قائم کیے ہیں اور کچھ معاملات میں تحقیقات کا آغاز کیا ہے ۔ یہ مقدمات اور انکوائریز آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے خلاف ہیں ۔ سندھ میں اگرچہ نیب آرڈی ننس 1999 ء کی منسوخی کا قانون نافذ العمل ہو چکا ہے لیکن سندھ ہائیکورٹ نے اپنے حالیہ حکم میں کہا ہے کہ پرانے مقدمات نیب کی عدالتوں میں چلتے رہیں گے جبکہ نئے مقدمات صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں چلائے جائیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگر اس مرحلے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کے تحت نہیں چل سکتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ نہیں چاہتی ہے کہ نیب مقدمات ان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر یں ۔ پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر آئینی ترامیم کرائے ۔ خاص طور پر میثاق جمہوریت کے مطابق ملک کے اندر نئی ’’آئینی عدالت‘‘ قائم کی جائے ، جو صرف آئینی درخواستوں کی سماعت اور ان کا فیصلہ کرے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں ترامیم کی جائیں ۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت مشکل میں ہے اور اسے پیپلز پارٹی کی مرضی کی آئینی ترامیم پر راضی کیا جا سکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی مشکلات کی وجہ سے فی الحال مسلم لیگ (ن) سے سیاسی طور پر دور رہے گی۔
تیسری بات بلاول بھٹو زرداری کی زیادہ اہم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں صرف دائیں بازو کی سیاست رہی تو بہت برا ہو گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو یاسینٹررائٹ ( وسط دائیں بازو ) اور لبرل سیاسی جماعتوں کی سیاسی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ ان کی قیادت مائنس ہو رہی ہے یا مائنس ہو سکتی ہے ۔ ان پر کرپشن ، دولت کے انبار لگانے اور طاقت کے حصول کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کے الزامات ہیں یا ان کے بارے میں ایسا تاثر قائم کیا گیا ہے ۔ اس بنا پر ملک میں سیاسی خلاپیدا ہو رہا ہے ۔ یہ خلا مذہبی اور فار رائٹ ( انتہا پسند دائیں بازو ) کی جماعتیں پر کر سکتی ہیں ۔ مستقبل کی سیاست میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم نظر آ رہا ہے ۔
نواز شریف کے بعد پاکستان
دیوارپہ دستک …منصور آفاق
ابھی تھوڑی دیر پہلے میں مانچسٹر کے پاکستان کمیونٹی کے سینٹر ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔سامنے دو تین سو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کے چہروں پر ہی نہیں دلوں پر بھی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ لکھا ہوا تھا۔ اچھے اچھے سلوگن والے بینر دیواروں پر آویزاں تھے ۔یہ سب وہی لوگ تھے جنہوں نے دامن کی دھجیاں سنبھال رکھی تھیں کہ اگست آیا تو جھنڈیاں بنائیں گے۔ وہ جھنڈیاں ہال میں لہرا رہی تھیں۔ شاید دیارِ غیر
میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان سے اس لئے بھی بہت زیادہ محبت ہے کہ ان کے اندر سے اِس بات کا دکھ نہیں جاتا ہے کہ وہ اپنا وطن چھوڑ آئے ہیں۔ وہ وطن جس کی بنیاد ان کے اجداد نے اپنی خون آلودہ ہڈیوں پر رکھی تھی۔ آگ کا ایک دریا چیر کر دوسرے کنارے آئے تھے۔ اقبال کے خواب کو دیوتا بنا کر اُس پر لاکھوں جانیں وار دی تھیں۔ اسٹیج پرمیرے ساتھ دائیں طرف مسلم ہینڈز کے چیئرمین لخت حسنین بیٹھے ہوئے تھے ان کے آگے سہیل وڑائچ تشریف فرما تھے ۔ان کے بعد ڈاکٹر اکبر ملک بیٹھے ہوئے تھے ۔میرے بائیں طرف والی نشست پر پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے ممبر امجد خان براجماں تھے ۔ان کے ساتھ چوہدری سکندر کی نشست تھی ۔سامنے میز پرایک خواب رکھا ہوا تھا ۔لہو سے لتھڑا خواب ۔سید کاشف سجاد کی تخلیق ’’میری پہچان پاکستان ‘‘اس تقریب کا اہتمام طاہر چوہدری نے کیا تھا صابر رضااُن کے معاون ِ خصوصی تھے۔لندن سے خاص طور پر احسان شاہد آئے تھے۔جنہیں میں جب بھی ملتا ہوں تو عطاالحق قاسمی یاد آجاتے ہیں ۔اگرچہ اِس تقریب کا عنوان ’’استحکام ِ پاکستان ‘‘تھا مگرمقررین کی گفتگو سے ایسا لگتا تھا جیسے اِس تقریب کا موضوع ’’نواز شریف کے بعد پاکستان ‘‘ ہو۔منوبھائی کی نظم ’’احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر‘‘ ایک گمبھیر آواز میں جب اِس بند پر پہنچی۔ (بینکاں تے اشراف دے ڈاکے۔۔سب توں وَڈی دشمن ساڈی۔۔اَن مُل تے بے جوڑ ترقی۔۔‘‘ موٹر وے ’’توں پنج قدماں تے۔۔پنج صدیاں پہلے دا چرخہ۔۔چھ صدیاں پہلے دی چکی۔۔کیہڑی ہور شہادت لبھئے۔۔ کیہڑی ہور گواہی پایئے۔ ایس تباہی، بربادی دا۔ کیہڑا ہور ثبوت لیایئے۔ احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر)۔ تو مجھے لگا کہ واقعی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہی پاکستان کا اصل مسئلہ ہے۔ جب ایک مقرر نے کہا کہ (امریکہ کی آرمی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈنگ جنرل،لیفٹیننٹ جنرل مائیکل گیریٹ کی قیادت میں چھ رکنی وفد نےپاکستان کا تین روزہ دورہ نواز شریف کے نا اہل ہونے کے فوراً بعد کیوں کیا۔کیا پاکستان کو پھر کسی نئی جنگ میں جھونکنے کی پلاننگ کی جارہی ہے ) تو میں سوچنے لگا کہ جی ایچ کیو میں پینٹاگان کے اس اہم ترین دورے کو نوازشریف کی نااہلی کے ساتھ جوڑا جائے یا نہ جوڑا جائے لیکن اس کاتعلق افغانستان میں نئی امریکی پالیسی کے ساتھ ضرور ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دو ہفتے پہلےمشاہد حسین نے کہا تھا کہ ’’ میں اِس خیال کو سختی سے مسترد کرتا ہوں کہ مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔پاکستان افغان مسئلے کے حل میں امریکہ کی مدد کرنے کو تیار ہے۔اسی دوران میرے موبائل فون کی اسکرین پر ایک میسج نمودار ہوا کہ’’خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے اپنا ایک نیا مشن خلا میں بھیج دیا ہے جس کی مدد سے ایک سوال کو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کر کے خلامیں سگنلز کی شکل میں پھیلایا جا رہا ہے اور خلائی مخلوق کی جانب سے دیئے گئے کسی ممکنہ جواب کو سننے کی کوشش کر رہے ہیں،ناسا کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ کائنات کے چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ناسا کی طرف سے پوچھا گیا سوال اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کاترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے، اگر دنیا کے کسی بھی باسی کو اس سوال کا جواب پتا ہو تو ناسا کو اطلاع کریں ۔سوال یہ ہے ۔مجھے کیوں نکالا گیا؟‘‘اور میں سوچنے لگا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے ایک ’’اہم ترین سوال ‘‘کا لوگ کس طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ سو اپنی باری پر میں نےلوگوں سے اس میسج کے متعلق ان کا خیال پوچھاتو پتہ چلا کہ یہ سوال تو اتنا اہم ہے کہ کئی اداروں کے سینئر ترین لوگوں نے اس سوال پر غور کرنے کے لئے باقاعدہ اجلاس طلب کئے ہیں کہ سابق وزیراعظم کو ابھی تک اتنے آسان سے سوال کا جواب کیوں نہیں مل رہا ۔جب کہ بچے بچے کومعلوم ہے کہ نواز شریف کو کیوں نکالا گیا ۔اجلاس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک ادارے کے صاحبان ِ علم و دانش ایک طویل بحث کے بعد بھی اس نتیجے پر نہ پہنچ سکے کہ سابق وزیر اعظم کو کس طرح سمجھایاجائے کہ انہیں کیوں نکالا گیا تو اُسی ادارے کا ملازم ایک فائل لے کر آیااور کہنے لگا‘‘ جناب یہ فائل نواز شریف کو بھجوا دیجئے انہیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا جب فائل کا کور اٹھایا گیاتو اُس میں فیصلے کا اردو ترجمہ رکھا ہوا تھا۔چہروں پر مایوسی پھیل گئی ۔ انہوں نے کہا’’ یہ کام تو تحریک انصاف والے پہلے کرا کے نواز شریف کو بھیج چکے ہیں ۔‘‘ تو ملازم بولا ’’اُس ترجمے میں دراصل ایک جملے کاترجمہ غلط ہوگیا تھا جس کے سبب سابق وزیر اعظم کو اپنے سوال کا جواب نہیں مل سکا ۔وہ جملہ یہ تھا کہ ’’یہ فیصلہ گزشتہ فیصلےکا تسلسل ہے‘‘ اس ترجمے میں اس بات کا ابہام چھوڑ دیا گیا تھا کہ کیا یہ ’’تسلسل‘‘ گزشتہ فیصلے کی تصدیق بھی کرتا ہے یا نہیں جس میں سابق وزیراعظم کو گاڈ فادر قرار دیا گیا تھا یعنی تمام جرائم کا سربراہ۔ اس ترجمہ میں باقاعدہ یہ لکھ دیا گیاہےکہ یہ فیصلہ گزشتہ فیصلہ کا تسلسل ہے یعنی اُس کی تصدیق کرتا ہے ۔‘‘
تقریب میں سہیل وڑائچ کے کالم
The party is Over اور ’’وزیر اعظم بو۔ وزیراعظم بو‘‘ بھی زیر بحث آئے۔ اُن کے نقطہ نظر کے حق میں اور اُس کے خلاف باتیں بھی ہوئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایک صحافی کو سہیل وڑائچ کی طرح غیر جانب دار ہونا چاہئے۔ اسے پوری دیانت کے ساتھ اپنے پروفیشن کےلئے کام کرنا چاہئے۔ رات کو رات اور دن کو دن کہنا چاہئے۔ اپنے مفادات کےلئے سورج کو سیاہ گولہ کہنے والے لوگ تاریخ کے ماتھے پر بد نما داغ کی مثال ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ کام بہت مشکل ہے۔ برسوں سے اہل ِ صحافت کا یہی تجربہ ہے کہ یہ غیر جانب داری صحافی کو ہمیشہ نقصان میں رکھتی ہے شاید اسی لئے اِس وقت کم ہی سہیل وڑائچ جیسےلوگ رہ گئے ہیں۔ تقریباً تمام میڈیا تقسیم ہوچکا ہے۔ اپنے اپنے نقطہ نظر کادام ِ ہمرنگ ِ زمین سب کے پائوں جکڑ چکا ہے ۔میں اس عمل کا کریڈٹ بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کو دیتا ہوں۔ نجانے سہیل وڑائچ کسے دیں گے۔

تازہ ترین