• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کے حوالے سے پاکستان میں حکمران خاندان اور اپوزیشن کے درمیان جو ڈیڑھ سالہ قانونی جنگ لڑی گئی ہے اس میں وزیراعظم کا عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہو جانا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ ابھی اس کے اصل و اس سے بھی بڑے اور دورس نتائج آنے باقی ہیں اور سیاسی استحکام کے ہوتے ہوئے جناب نوازشریف نے تو مزید ایک سال ہی اپنے منصب عظمیٰ پر رہنا تھا، مگر انہوں نے اپنے تیسرے اقتدار کے چار سال میں عوامی فلاح یا ملکی استحکام کا کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ ان کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کوئی بڑے قومی خسارے کا باعث بن گئی ہو۔ بلکہ بہت اطمینان کی اوربڑی بات یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت قائم رہتے ہوئے جمہوری عمل جاری و ساری ہے بلکہ موروثی اقتدار جو زور پکڑ رہا تھا اس پر ضرب لگی ہے جو مطلوب تھی اور ہے۔ باوجود اس کے کہ مہلک وفاداری کی روایتی سوچ لئے نئے منتخب وزیراعظم جناب خاقان عباسی کو منصب عظمیٰ سنبھالنے کے بعد یقین نہ آرہا تھا کہ اب وہ ہی وزیراعظم ہیں اب کچھ آیا ہے تو انہوں نے گورننس کے معاملات میں آغاز میں ہی کچھ بہتری کی ہے۔ شدت سے مطلوب قومی ضرورت فوری وزیر خارجہ کی تقرری اور اجڑی وزارت خارجہ کی تنظیم نو پوری کی گئی ہے۔ چلیں معزول وزیراعظم کے نامزد اور ان کے وفا کے پیکر خواجہ آصف ہی سہی، اب کوئی وزیر خارجہ تو ہے، ملکی حساس صورتحال کے پیش نظر نشاندہی کرنے والے یہ تو پہلے بھی کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب اپنے ہی اعتماد اور پسند کا وزیر خارجہ لائیں لیکن لائیں تو سہی، لیکن انہوں نے اپنے انا پرست ہونے کی مکمل تصدیق کو اتنی بڑی قومی ضرورت کے مقابل زیادہ اہم جانا، یوں ان کی اپنے آئینی حلف سے وفا میں کمی واضح طور پر پہلے تو محسوس کی جاتی رہی، پھر زبان زد عام ہوئی، لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگی، رائے عامہ کی یہ بے خبری بدترین گورننس ہے یا اسے معلوم ہوتے نظر انداز کرنا قومی مینڈیٹ لینے والے وزیراعظم کا انتہائی منفی طرز عمل تھا۔ پھر نااہل ہو جانے والے وزیراعظم کو یہ معلوم ہی نہ ہوا یا وہ بڑی لاپروائی سے نظر انداز کرتے رہے کہ ان کی پارلیمان سے دوری میڈیا اور پارلیمانی امور میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں اور پوٹینشل شہریوں میں کس نظر سے دیکھی جارہی ہے اور کس طور پر زیر بحث آنے لگی۔ اراکین اسمبلی سے ان کی دوری تو کیا کم ہوتی، وزراء بھی اس فہرست میں آگئے، حتیٰ کہ آئین کے مطابق عظیم انتظامی ضرورت بامقصد اور انتہائی رسمی کابینہ کے اجلاس بھی کم ہوتے ہوتے ختم ہی ہوگئے۔ اب یہ اطمینان بخش خبریں آئی ہیں وزیراعظم عباسی نے کابینہ کو انگینج رکھنے کے لئے کوئی ٹائم فریم بنالیا ہے۔ جن میگا پروجیکٹس میں وزیراعظم صاحب دلچسپی لے رہے تھے وہ عوامی مفاد کے عظیم موضوعات ہوتے ہوئے بھی کسی اعلامیہ پالیسی کا حصہ ہوتے اسمبلی میں زیر بحث نہ لائے گئے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ ان پروجیکٹس میں ان کی اور ان کے ایک آدھ وزیر کی دلچسپی زیادہ ہے یا میڈیا پر اور اپوزیشن کی جانب سے اس پر ہونے والی تنقید اور چبھتے جواب جن کا جواب کبھی حکومتی ترجمان بھی دینا گوارا نہیں کرتے، نہ وزارت اطلاعات جو روایتی سیاسی ابلاغ کی مزید مسخ شکل کے لئے وقف رہی۔ اگر آپ نے وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد کے دو تین اسکولوں کورنگ روغن کرا کر صاحبزادی کے ساتھ جا کر ان اسکولوں میں ایک دو گھنٹے گزار لئے یا اپنے اپنے ووٹروں میں چند ہزار ہیلتھ کارڈ بانٹ دیئے تو یہ کوئی پالیسی نہ تھی حتیٰ کہ کوئی مخصوص پروگرام بھی نہ تھاجتنا دکھاوے کا ہوا اس کا کریڈٹ بھی عمران خان اور میڈیا کو ہی جاتا ہے جن کی ہر دو بنیادی شعبوں کو مکمل نظر انداز کرنے پر شدید اور مسلسل تنقید کے بعد یہ لوپروفائل ترقیاتی سرگرمیاں دکھاوے کے لئے کی گئیں۔ جن کا دھنڈورا ایسے پیٹا گیا کہ ان شعبوں میں کوئی انقلابی پالیسی آگئی ہے جو بڑے عوامی فوائد کے ساتھ نافذہو چکی ہے۔
انکار نہیں کہ اب ن لیگ کے جاری اقتدار کے تقریباً آخری سال میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال پی پی دور سے بہتر ہے جس پر سابق وزیر آخری مہینوں میں نازاں رہے، لیکن یہ ان کی گورننس کی روایتی ترقیاتی سوچ ہی کہ ’’ہماری باری پی پی کی باری سے بہتر مانی جائے‘‘۔
اس روایتی اور کاروباری نوعیت کی اپروچ پر عوامی زاویہ نگاہ (Perception) اس سے آگے نہ بڑھ سکا کہ یہ ن لیگی حکمران کھاتے تو خوب ہیں لیکن کچھ عوام پر لگا بھی دیتے ہیں۔ گویا ترقیاتی اپروچ گھسی پٹی رہی اور ن لیگ اپنے دیرینہ دائرے سے باہر نہ نکل پائی۔ جبکہ غربت اور دیگر جملہ حالات پچھلے ادوار کی نسبت کتنے ہی زیادہ گمبھیر تھے (اور ہیں) ایسے میں جناب نوازشریف کا تیسرا دور شروع ہوتے ہی کئی جانب سے فوراً اور مسلسل یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ یہ دور اب ماضی کے ادوار کی طرح اللے تللوں کا دور نہیں فقط کفارے کی کوئی اور قطعی گنجائش نہیں لیکن ان کی حکومت کا ایک ہی فوکس ’’انرجی کا بحران‘‘ کے تقریباً تمام حکومتی اقدامات سخت متنازع ہیں، آئی پی پیز کو 500 ارب کی ادائیگی میں 170 ارب کے گھپلوں اور بے قاعدگیوں کا معاملہ کوئی اپوزیشن کا شور شرابا ہی یا الزام نہیں، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ ہے، پھر آئی پی پیز کا ادھار بھی وہیں کا وہیں ہے جو ظلم چھوٹے صارفین سے زیادہ بلوں کی زیادہ وصولی کے حکومتی گھپلوں کی صورت میں ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے، وہ الگ کالی گورننس کی داستان ہے۔ تنقید کی یہ سب تکرار یوں ضروری سمجھی جارہی ہے کہ وزیراعظم عباسی میاں صاحب کو وفاکا خاصا یقین دلا چکے ہیں۔ اب جو بہتر کرسکتے ہیں کریں۔
سب سے بڑھ کر عدلیہ کے ذریعے بمشکل آئینی لازمے کے مطابق بلدیاتی اداروں کے جو انتخابات کرائے گئے پنجاب اور سندھ میں ان کے مطلوب نتائج کوکچل دیا گیا ہے۔ انہوں نے گلی، محلے، گائوں، گوٹھ کی سطح پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بحال کرنا تھا لیکن ترقیاتی فنڈز فراہم نہ کئے گئے اور ان کا رخ بدستور ایم پی ایز اور ایم این ایز کی جانب رکھ کر آئین کی خلاف ورزی جاری رکھتے ہوئے عوام کو ان سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے۔ کراچی کے اڑھائی کروڑ عوام تو اس آئینی خلاف ورزی کے بدترین متاثرین کے طور پر مسلسل زیر بحث ہیں لیکن ’’سول سپرمیسی‘‘ عوامی مفادات کے تمام معاملات میں ایک زندہ لاش ہی بنی رہی اور روتی رہی کہ سول سپرمیسی کیسے قائم کریں؟
پارلیمنٹ برائلر مرغی کی طرح نہ کوئی انڈا دے سکی، بچے تو یہ کیا نکالتی۔ کس نے اسے روکا تھا کہ خارجہ امور میں مطلوب آزادی کو زیر بحث نہ لائے۔ اگر عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری میں کوئی کسر تھی تو کیوں نہ کوئی قانون سازی کی گئی؟ وزیراعظم نوازشریف اور پارے کی طرح متحرک چھوٹا وزیراعلیٰ بھائی جاری نظام کو گلاسڑا اور گھپلوں سے اٹا ہوا قرار دیتے رہے لیکن اس کی اصلاح کے لئے کچھ بھی تو نہ کیا۔ پارلیمنٹ کو جامد ہی رکھا گیا۔ ایک سال سے شور مچایا ہوا ہے کہ ہمارا ہی احتساب کیوں؟ بھئی حکومت وفاق اور دو صوبوں میں آپ کی۔آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان میں بھی آپ حکمران۔ پارلیمنٹ میں آپ کی اکثریت اختیارات اورحکمرانی کا مرکز آپ کا خاندان۔ جہاں مطلوب تھا آپ نے احتساب کرنا تھا، آخر عمران خان کے خلاف عدالت میں گئے نا کسی نے روکا آپ کو۔ عدلیہ نے جب وقتی فیصلہ آپ کے حق میں دیا تو مٹھائیاں بٹ گئیں۔ اسی عدالت نے اسی آئین و قانون کی روشنی میں آپ کے خلاف فیصلہ دیا تو آپ نے یکدم نئے آئین، آئینی پیکیج، آئینی ترامیم کا شور مچا دیا۔ کتنا اور کب تک قوم کو آپ بیوقوف بناتے رہیں گے، دیکھ نہیں رہے کہ حکمرانی کے اس رویے پر آپ خود کیا بن چکے ہیں۔

تازہ ترین