• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوٹیلیٹی بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار
ساری دنیا میں جتنی بجلی، فون استعمال ہو اتنا ہی بل ہوتا ہے، ہمارے بجلی، فون کے بل غریب کے دل ہوتے ہیں کہ ٹیکسوں سے داغ داغ ہوتے ہیں، ہم نہیں کہتے سروے کرا لیں تو یہ بھی سامنے آ جائے گا دونوں ناگزیر ضرورتوں کی فراہمی کا نظام بھی درست نہیں، لائن مین کے لئے داتا دربار جا کر منت ماننا پڑتی ہے کہ وہ قدم رنجہ فرمائے تو گلشن کا کاروبار چلے، صارفین بھی بجلی کی ترسیل کے نظام میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور کھمبے سے اس قدر متصل اپنا مکان کھڑا کر دیتے ہیں کہ تاروں کا ہجوم گھر کی دیوار کو چوم کر گزرتا ہے، یہ طرز عمل خطرناک بجلی چوری کے لئے سہولت کار اور بجلی کی روانی روکنے میں سہولت کار کا کام دیتا ہے، اسحاق ڈار صاحب مہربانی کریں یوٹیلیٹی بلوں پر اتنے سارے ٹیکس نہ لگائیں، کہ بجلی ایک روپے کی خرچ ہو تو 50روپے اس پر ٹیکس ادا کرنا پڑے، بلاشبہ حکومت قوم کے ٹیکسوں سے چلتی ہے چلے لیکن غریب عوام کی پسلی دیکھ کر، اس وقت فون ہو یا بجلی بہت مہنگی پڑتی ہے، حالانکہ سستی بجلی دینے کے سبز وعدے اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا کا عشقیہ انداز اپنی جگہ عوام کی گردن پر گرفت مضبوط کئے ہوئے ہے، موبائل فون کے لئے سو روپے کا بیلنس ڈلوانے پر صارف کے پاس ٹیکس کٹنے کے بعد اتنا ہی بیلنس رہ جاتا ہے کہ صبح ڈالتا ہے شام کو فون کی اسکرین پر بیلنس ندارد موبائل فونز کے بیلنس کارڈز پر ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اسے کم کیا جائے موبائل فون کمپنی نجی ہو سرکاری ہو کو بہت فائدہ ہو گا، دکان چل نکلنے کا مطلب یہ نہیں کہ اشیاء کے نرخ کئی گنا بڑھا دیئے جائیں، مگر یہ کمپنیاں بھی کیا کریں کہ ٹیکس تو سرکار لگاتی ہے اور خاصا کاری ٹیکس لگاتی ہے، میری اپنی حالت یہ ہے کہ فون موبائل ہو یا لینڈ لائن سنتا ہوں، سناتا نہیں، مگر لینڈ لائن فون کا بل ٹیکسوں کے بوجھ سے اتنا بوجھل کہ دل دہلا دیتا ہے، کیوں امراض قلب میں اضافہ کیا جا رہا ہے؟ خدا نہ کرے کہ دھڑکنوں پر بھی ٹیکس لگے یا گر جائے، اور بجلی تو گرتی ہے آتی نہیں، البتہ بل اس طرح لدا پھندا آتا ہے کہ یہاں لوڈ شیڈنگ کا نشان تو نہیں، بہرحال ہماری معروضات غریبا نہ رعایانہ ہیں ان پر غور کر کے ایک طرف نہ رکھ دیا جائے۔
٭٭٭٭
سیاست ٹرین بمقابلہ آزادی ٹرین
یہ سیاست کی دکان ہے کہ جس میں روٹی ہے، نہ کپڑا ہے نہ مکان ہے، بس آن ہے، بان ہے، شان ہے، سیاست مہنگا ترین شوق ہے جس پر اشرافیہ براجمان ہے، اور بندۂِ مفلس زندہ ہے مگر بے جان ہے، سیاست کی ٹرین کبھی رکتی نہیں چلتی رہتی ہے، کیونکہ یہ ڈبل شاہ ہے اس ٹرین کے سوار رات کو کروڑ پتی سوتے ہیں صبح ارب پتی اٹھتے ہیں، اللہ تعالیٰ وزیر ریلوے سعد رفیق کو کروٹ کروٹ خوشیاں عطا فرمائے، انہوں نے آزادی ٹرین چلا کر 70ویں آزادی سالگرہ کو پٹری پر چڑھا دیا ہے دیکھئے کہاں تک پہنچے ، ایک مزدور سے پوچھا سیاست بارے کیا کہیں گے؟ کہنے لگے سارا دن اینٹیں ڈھوئی ہیں، پسینہ آتا ہے تو لُو کا حبس کا اپنا ہی مزا ہے، اب چھٹی مل گئی سیدھا مزدوروں کے ہوٹل جا کر روٹی کھائوں گا پھر لمبی تان کر سو جائوں گا اور نیند ایسی کہ مجال ہے کہ کوئی خواب بھی ڈسٹرب کرے، پھر اس نے ایک لمبی آہ بھر کر الحمد للہ کہا اور چل دیا، اور میں اس پر رشک کے عالم میں ڈوبا رہ گیا، ٹرین سیاسی ہو یا آزادی کی، سیاسی ہی ہوتی ہے، ہم آزاد ہیں کہ جب چاہیں غریب بن جائیں ایک آزادی وہ بھی ہوتی ہے کہ امیر نہ بنا سکے تو غریب بھی نہیں رہنے دیتی، ہم اس ٹرین سے کیسے اتر کر آزادی ٹرین میں بیٹھیں جس میں 70برس سے بیٹھے ہیں اور وہ چلتی نہیں، رکی ہوئی ٹرین میں بیٹھنے کا بھی اپنا ہی مزا ہے، شاید غالب نے ایسی صورتحال میں ہی کہا ہو گا؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں
٭٭٭٭
اف یہ بونگیاں!
علی الصباح بونگ پائے کھا کر انسان سارا دن اگر بونگیاں مارے تو وہ ہر فکر ہر غم سے آزاد ہو جاتا ہے، یہ جو ہم قانون، جمہوریت اور صادق امین ہونے کی باتیں کرتے ہیں، اگر نہ کریں تو شاید قانون جمہوریت اور صداقت و امانت واقعتاً ارض پاک پر اترے، مگر ہم نے اس کے لئے باتیں بنائیں رن وے نہیں بنایا، شاید اسی لئے اب پی آئی اے با کمال لوگ اور لاجواب سروس کے اعزاز سے بھی محروم ہو گئی، الغرض سارا وطن ہی اب پی آئی اے ہو گیا ہے کہ اچھا بھلا تھا پھر نہ جانے کیا ہوا کہ جہازوں پر ٹاکیاں لگ گئیں اور ان سے بریانی کی خوشبو آنے لگی، ایئر ہوسٹس اب بھی ہے مگر وہ پہلا سا نکھار کہاں، پائلٹ بھی شاید آدھی چھٹی ساری کر کے کاک پٹ میں بیٹھ جاتے ہیں یہ جو ہم ہر روز شہید ہوتے ہیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے، یہ ٹھیک کہ شہادت پانا بڑا درجہ ہے مگر کیا شہادتیں کچھ زیادہ نہیں ہو گئیں؟ کبھی لہو کا لفظ اس کثرت سے نہیں سنا تھا جتنا آج اس کا پرچار ہے، کوئی کسی کو سناتا ہے جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا، کوئی خبربنا کر کہتا ہے کہ فلاں صاحب اپنے کارکنوں کا لہو گرماتے رہے، کوئی کراچی کی سڑکوں پر پانی دیکھ کر کہتا ہے وہاں لہو بہہ رہا ہے، شاید ایک بار پھر غالب نے اس منظر کو دیکھ کر برائے اصلاح فرمایا ہو گا؎
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
جو لوگ اس شعر میں دوڑتے کو دوڑنے کہتے ہیں وہ غالب کا دل نہ دکھائیں اصلاح کر لیں، کوئی کہتا ہے لہو سستا ہے پانی مہنگا، وہ بھی اصلاح کر لیں ابھی لہو اتنا بھی سستا نہیں، ایک چیز جو بہت ہی سستی ہے وہ اپنے عیبوں پر کالا موم جامہ چڑھا کر اوروں کی عیب جوئی یہ جہاں سے چاہو مفت پائو، اور اپنی حرکتوں پر مٹی پائو، جو مزا جھوٹ میں ہے وہ سچ میں کہاں ؟جو فضیلت غیبت میں ہے وہ کسی کی پیٹھ پیچھے اچھائی بیان کرنے میں کہاں۔
٭٭٭٭
آبی ٹوٹے
....Oسعد رفیق:ن لیگ کو بیساکھی کی ضرورت نہیں۔
مگر اسے عوام کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
....Oشیخ رشید:نواز شریف کی سیاست دفن۔
شیخ صاحب اکثر برزخ سے بولتے ہیں۔
....Oپرویز رشید:وزیر داخلہ کے ہوتے ہوئے ہمارے خلاف فیصلے آئے،
تو کیا ان کو عدالتی فیصلے روکنے کے لئے وزارت داخلہ دی تھی؟
....Oایس ایم نامی شخص نے حسین نواز کی تصویر لیک کی،
جب کسی کو یہ نہ بتانا ہو کہ اس کا نام اللہ دتہ ہے تو ADصاحب کہا جاتا ہے۔ یہ ایس ایم بھی کوئی اللہ دتہ ہو گا جو بطور ایس ایم استعمال ہو گیا۔

تازہ ترین