• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے’دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ منشیات کے رسیا ہیں‘ یہ معلومات موقر روزنامہ جنگ کے باخبر کالم نگارنےاُن دنوں اپنے کالم کے ذریعے ہم عوام کے نام کی تھیں جب وفاق و صوبوں میں پیپلز پارٹی کی عوامی سلطنتیں تھیں۔ یہ اطلاع یوں ہمارے لئے فکر مندی لائی کہ ہم جس صوبے میں مقیم ہیں اس کے وزیر اعلیٰ بھی اس کی زد میں تھے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ ایک آنکھ زخمی ہوجائے تو دوسری پر ہاتھ رکھناچاہئے۔ سو ہم نے خداوند کا شکر ادا کیا کہ آبائی صوبہ تو اس سے محفوظ تھا۔ پھر چند سال بعد جب حکومتیں تبدیل ہوگئیں تو آبائی صوبے کو بھی نظر لگ گئی ...! یہ باتیں قلب و نظر میں یوں تازہ ہوئیں کہ منشیات کے عادی ارکان اسمبلی کی نااہلی کے لئے سیف اللہ محب ایڈوکیٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی ہے، پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کے لئے 62-63پر پورا اترنا ضروری ہے، لہٰذا ان کے بلڈ ٹیسٹ کرائے جائیں، نیز 2018کے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے قبل از انتخاب ٹیسٹ کرائے جائیں۔
ایک دوست کہہ رہے تھے کہ یار من یہ 62-63تو ایک عرصے سے آئین کا حصہ ہے تو کیا اب تک اسمبلیوں میں سب پاک صاف تھے کہ یہ قانون بروئے کار نہیں آیا یا یہ قانون سورہا تھا ؟ بات منشیات کے حوالے سے ہورہی تھی۔ ڈاکٹر محمد طارق خان کی تصنیف ’’منشیات سماجی مسائل اور سد باب‘‘ کے مطابق منشیات سے مراد وہ تمام اشیا یا دوائیں ہیں جو انسان کے ذہنی، جسمانی، جذباتی اور عملی رویوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ان میں افیون، چرس، حشیش، بھنگ، ہیروئن، شراب، الکحل، پیٹرول، گلو، گانجا، کوڈین، ایل ایس ڈی، خواب آور گولیاں، اور نارکوٹکس کے ٹیکے شامل ہیں۔ اس فہرست میں ایک نشہ ’کوکین‘ شامل نہیں تھا۔ ہم نے ایک ماہر نفسیات سے رجوع کیا تو انہوں نے بتایا کہ مذکورہ تمام نشے بدیسی و دیسی دونوں صورتوں میں دستیاب بلکہ عام ہیں۔ اس لئے ان کا تذکرہ بھی عام ہے۔ دیگر نشے بھی ہیں جو مخصوص ہیں۔ ’’کوکین‘‘ چونکہ ’پلے بوائے‘ ٹائپ غیرملکی مہنگا نشہ ہے شاید اس لئے اس فہرست سے غائب ہوگیا ہے۔ ویسےاس کے عادی افراد کی علامات یہ ہیں کہ جب وہ تشویش یا سرور میں ہوتے ہیں ، تو( خواہ لندن میں آوارہ گردی کرتے عمر گزری ہو) ناک ہیرونچی کی طرح آستین سے ہی صاف کرتے ہیں ۔بسا اوقات’ ہیرو ئن‘ بھی اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ خیر پاکستان میں تو ان دنوں اس نشے کا جتنا چرچا ہے، اتنا ہمارے ’چرس‘ کا بھی نہیں ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ’ ہمارے چرس‘ سے کیا مراد ہے۔ ہم خواہ مخواہ کیوں چرس کو اپنی ’ایجاد‘ بتانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔پتھر کے دور کا انسان بھی چرس اور گانجا پیتا تھا۔ محققین نے قدیم غاروں میں دفن شدہ بھاری مقدار میں نشہ آور بوٹیوں کے بیج دریافت کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ 40ہزار سال قبل کا انسان چرس اور گانجے کے نشے کے علاوہ اس مقصد کے لئے مختلف جڑی بوٹیاںبھی استعمال کرتا تھا۔ فرانسیسی محقق جیکوئس ڈبوئس(Jecos Daboes) نے پتھر کی بنی ہوئی پائپ نما سلفیاں بھی انہی غاروں سے دریافت کیں، جن میں نشہ آور بیج بھرے ہوئے تھے۔ ایران اور افغانستان میں چرس کا رواج برطانوی قبضے سے شروع ہوا۔ جیسا کہ پاکستان میں ہیروئن کا استعمال جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کے دور میں شروع ہوا تھا حالانکہ ہیروئن پہلی بار 1874میں امریکہ میں متعارف ہوئی۔
مشکل یہ ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ نہیں کرتے اس لئے ہم ناچیزیہ سمجھتے تھے کہ چرس ہماری فخریہ پیش کش ہے حالانکہ یہ ملنگی یا درویشی بھی پردیسی نکلی... کبھی کبھی ہم سوچتے تھے کہ جس طرح ہمارے شعرا کو انگور کی بیٹی پیاری ہے، آخر چرس کے ساتھ سوتیلا پن کیوں کیا جاتا ہے ۔ ایک آدھ فلمی گیت کے سوا جیسا کہ ’’دم مارو دم مٹ جائے غم....یا ایک پنجابی فلم کی مشہور زمانہ قوالی جسے ملکہ ترنم نور جہاں نے جس وجدانی کیفیت سے سر شار گایا اُسی لے میں اداکارہ عالیہ نے اس پر ’ہوش ربا‘ رقص کیا تھا۔ پشتو شاعری میں بھی اس کا ذکر خیرنہیں ہے۔البتہ موجودہ ڈسکو پشتو موسیقی میں سُرخ العین کی آمیزش اور اعضا کی شاعری کے ساتھ اسکا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن یہ صرف ’بالغان کے لئے ہے‘...
نہ جانے کیوں ہم چرس کے ہوکے رہ گئے۔حالانکہ ذکر تو تمام منشیات کا ہورہا تھا۔ جس طرح شراب کو اُم الخبائث کہا گیا ہے۔ا سی طرح اس کو لیلائے مے خانہ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت اقبال نے تو کہا تھا۔
گزر گیا اب وہ دور ساقی، کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
دیکھئے صاحب! اس کا مفہوم بین السطورنہاں ہے، اگر ظاہر پر گئے تو حضرت سمیت تمام کے تمام 62-63کی زد میں آگئے ہوں گے۔ بنابریں ہم حیران ہیں کہ یہ کم بخت ہے کیا چیز ہے کہ ہر کوئی لگی لپٹی کہےبغیر اسے اپنانے کا واشگاف اعلان کرتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کس دھڑلے سے کہا تھا ’’میں شراب پیتا ہوں کسی کا خون تو نہیں پیتا‘‘ احمد فراز تو پھر یہ ترکیب بھی بتاتے ہیں۔
غم دنیا بھی غم یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
ساغر صدیقی کا مطالبہ ہے۔
جسے زبان ِخرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی جلائو بڑا اندھیرا ہے
ساغر نظامی تو لٹنے تک پر آمادہ ہوجاتےہیں۔
جو ساقی نےہنس کر کبھی جام بخشا
تو ساغر نے اٹھ کر جوانی لٹادی
درد و آہنگ کا کبھی شکوہ زباں پر نہ لانے والے فیض صاحب بھی گلہ کرجاتے ہیں
نہ گُل کھلے ہیں ،نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے ارشاد فرمایا تھا ’’پارلیمنٹ لاجز میں سالانہ چار سے پانچ کروڑ کی شراب لائی جاتی ہے ، ہروقت چرس اور شراب کی بوآتی ہے‘‘۔ 5سال قبل جب عوامی حکومت تھی ہمیں اس کا مشاہدہ اُس وقت ہوا جب پارلیمنٹ لاجز میں ایک اقامت گاہ پرنشست کے بعد ہم رات گیارہ بارہ بجے پشتو چینل خیبر کے ہر دلعزیز اینکر پرسن حنیف الرحمٰن کی رہائش گاہ جانے لگے ، تو لاجز کے مختلف کمروں سےآنے والی نشیلی بو نے دور دور تک ہمیں الوداع کہا۔ گزشتہ روز پٹیشن کی خبرپڑھنے کے بعد ہم ایک دوست سے کہنے لگے، خداوندکریم پٹیشن میں برکت ڈالے،اب شاید ہی کوئی 62-63سے بچ نکلے ۔ ایک بڑی تعداد تو منشیات میں آجائے گی اور باقی حق سچ چھپانے کی پاداش میں گھر چلے جائیں گے۔ ہم نے کہاہاں! پارسا کے کیا کہنے... دوست نے اتفاق نہیں کیا، کہنے، لگے کہ ایک تو یہ نام نہاد افغان جہاد میں ڈالروںسے کھیلتے رہے ہیں، دوم معصوم انسانوں کو گم راہ کرنے کا سبق بھی انہی کا ازبر شدہ ہے۔پھر ایک واقعہ سنانے لگے کہ ایک شام ایک انتہائی صحت مند ’پارسا‘ فٹ پاتھ پر’ با وجوہ‘ اوندھے منہ لیٹے پائے گئے، میں نے فوری گاڑی روکی، برسوں کی شناسائی ہے، ادب سے عرض کیا، حضرت کیا واک کررہے تھے۔ بشیر بدر کی زبان میں فرمانے لگے۔
نہ تم ہوش میں ہو، نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

تازہ ترین