• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد گزشتہ دنوں پہلی بار ایک روزہ دورے پر کراچی آئے اور گورنر ہائوس کراچی میں بزنس کمیونٹی کے لیڈرز و ممتاز صنعتکاروں سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات دو گھنٹے سے زائد جاری رہی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ محمد زبیر، وفاقی وزراء احسن اقبال، مصدق ملک، مفتاح اسماعیل، وزیراعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد، گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ، چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا، ممبر اِن لینڈ ریونیو خواجہ تنویر جبکہ نجی شعبے سے ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل، نائب صدر اشتیاق بیگ، کراچی چیمبرز کے صدر شمیم فرپو، اوورسیز چیمبرز کے صدر خالد منصور، حبیب بینک کے چیئرمین سلطان علی الانہ، اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین منیر کمال، حسین دائود، محمد علی ٹبہ، عارف حبیب، فواد انور، بشیر علی محمد، بشیر جان محمد، عقیل ڈھیڈی، آصف ریاض ٹاٹا، سراج تیلی، زبیر موتی والا، عبدالسمیع خان، ممتاز بینکرز عاطف باجوہ، جہانگیر صدیقی، شہزاد ڈاڈا، صالح فاروقی اور دیگر ممتاز بزنس مین شریک تھے۔ دوران ملاقات بزنس مینوں نے وزیراعظم کو صنعت و تجارت میں حائل مشکلات سے آگاہ کیا۔ میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بزنس کمیونٹی سے وعدہ کیا تھا کہ رواں سال جون جولائی تک پاک ترکی آزاد تجارتی معاہدہ طے کرلیا جائے گا مگر ابھی تک یہ معاہدہ نہیں ہوسکا، حکومت سے درخواست ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر معاہدے کو فائنل کرے تاکہ ملکی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں اضافہ ہوسکے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف سے گورنر ہائوس کراچی میں بزنس مینوں کی گزشتہ ملاقات جس میں، میں بھی موجود تھا، کے دوران نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے تجاویز مانگی گئی تھیں جبکہ گورنر سندھ کی سربراہی میں بنائی گئی بزنس مینوں کی کمیٹی نے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے اور وطن واپس لانے کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے حکومت کو سفارشات بھیجی تھیں لیکن گزشتہ کئی ماہ سے غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث ایمنسٹی اسکیم کی سفارشات پر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا تاہم پانامہ کیس میں بیرون ملک اثاثے رکھنے کی قانونی حیثیت کی آگاہی کے بعد بزنس کمیونٹی جنہوں نے ماضی میں پاکستان بالخصوص کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال،بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے اپنی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کی تھی، اب پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث اپنا سرمایہ وطن واپس لانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر عارف حبیب نے بتایا کہ اس طرح تقریباً 20ارب ڈالر پاکستان لائے جاسکتے ہیں جبکہ 300 ملین ڈالر کے اضافی ریونیو بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ ملے گی، حکومت کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ 2018ء تک ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی لیکن پاکستان کی صنعت کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی ہے جس کے نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں اور اسکی وجہ سے پیداواری لاگت زیادہ آتی ہے جبکہ ہماری مصنوعات مقابلاتی حریفوں کے مقابلے میں مہنگی ہیں لہٰذ ملکی ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے صنعتوں کو قابل برداشت نرخوں پر بجلی سپلائی کی جائے۔ زبیر موتی والا نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی مصنوعات ہماری مصنوعات سے 13فیصد سستی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کا مینوفیکچرنگ سیکٹر سکڑ رہا ہے۔
فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے بتایا کہ نئے بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت تقریباً 8 روپے فی یونٹ ہے جبکہ ہم سے بجلی کی قیمت 14روپے یونٹ سے زیادہ چارج کی جارہی ہے۔ اس موقع پر میں نے مالی (کرنٹ اکائونٹ) اور تجارتی خسارے میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کو بتایا کہ ہماری گروتھ امپورٹس کی وجہ سے ہے جبکہ اِسے ایکسپورٹس کی وجہ سے ہونا چاہئے، ملکی ایکسپورٹس کم ہوکر 20ارب ڈالر سے بھی گرگئی ہیں جبکہ امپورٹس 53ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، اس طرح تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر کی خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی کا باعث بنے گا۔ ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے بتایا کہ گزشتہ 3سالوں میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد گنی ہوگئی ہے جن میں سے زیادہ تر افراد اپنے گوشواروں کیساتھ ٹیکس کی ادائیگی بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں 26ارب ڈالر کے ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے بارے میں بھی بتایا کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال سیلز ٹیکس ریفنڈ زیادہ ادا کئے گئے ہیں اور یکم ستمبر سے انکم ٹیکس ریفنڈ کی ادائیگی بھی شروع کی جائیگی۔ میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کے مسائل پر ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا اور ممبر اِن لینڈ ریونیو خواجہ تنویر سے تفصیلی بات ہوئی ہے جنہوں نے یقین دلایا ہے کہ ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا جس پر میں طارق پاشا اور خواجہ تنویر کا مشکور ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ بزنس کمیونٹی معیشت کی دستاویزی کیلئے ہمیشہ ایف بی آر کو سپورٹ کریگی۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے شرکاء کو بتایا کہ ملک میں پلانٹ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے جو نہایت حوصلہ افزا بات ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں صنعتوں کے قیام سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایف پی سی سی آئی کی بینکنگ اینڈ فنانس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے میں ہر سال گورنر اسٹیٹ بینک اور مختلف بینکوں کے صدور کے ہمراہ روپے کی قدر، نجی قرضوں، ملکی مالی اور مالیاتی پالیسیوں کا جائزہ لینے کیلئے اجلاس منعقد کرتا ہوں۔ اس سال گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ 23 اگست کو ڈپٹی گورنرز، ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور تمام کمرشل بینکوں کے صدور کیساتھ فیڈریشن ہائوس آرہے ہیں۔ اجلاس میں ایکسپورٹس میں کمی اور ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران کو ایجنڈے میں رکھا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال اور سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ملکی معیشت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج 53,000 پوائنٹس کی سطح سے مسلسل گرکر 43,000 کی نچلی ترین سطح پر آگیا ہے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو ناقابل برداشت مالی نقصان ہوا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یقین دلایا ہے کہ حکومت، سابق وزیراعظم نواز شریف کی پالیسیاں جاری رکھے گی، حکومت کی اولین ترجیحات میں امن و امان کی بہتر صورتحال، تیز معاشی گروتھ، نئی ملازمتوں کے مواقع اور ریونیو کا زیادہ سے زیادہ حصول شامل ہے، بزنس مین کا کاروبار ترقی کریگا تو حکومت ترقی کریگی۔‘‘ وفاقی وزراء کے ہمراہ وزیراعظم کی بزنس کمیونٹی سے ملاقات حکومتی ترجیحات کی نشاندہی کرتی ہے، حال ہی میں وزیراعظم نے کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 25 ارب روپے اور حیدرآباد کیلئے 5 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کا عوام کو شدت سے انتظار تھا۔ کالم کے آخر میں، میں گورنر سندھ محمد زبیر کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بزنس لیڈرز اور ممتاز صنعتکاروں کو موقع فراہم کیا کہ وہ وزیراعظم پاکستان سے براہ راست اپنے مسائل پر بات کرسکیں۔

تازہ ترین