• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ میاں محمد نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے بچانے اور اپنی سیاسی بقا کیلئے میاں صاحب کیا راستہ اختیار کرینگے؟ یہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں سب سے زیادہ متعلق سوال ہے۔ اگلے روز شریف خاندان نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیش ہونے سے انکار کر دیا اور فیصلہ کیا ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی اپیلوں پر فیصلہ ہونے تک وہ نیب کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔ شریف خاندان کے اس فیصلے سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت مل رہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) تصادم یا ٹکراؤ کے راستے پر چل سکتی ہے کیونکہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو مزید قانونی گرفت سے بچانے اور میاں صاحب کو سیاست میں واپس لانے کیلئے اسکے علاوہ انکے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے قائد کو پہلے کی طرح عدالتوں اور انکوائری ٹیموں کے سامنے پیش نہیں ہونے دینگے، جہاں بقول انکے انصاف اور قانون کے تقاضے پورے نہ کئے جاتے ہوں۔ آج بھی نواز و فیملی کو NABلاہور میں طلب کیا گیا تھا مگر کوئی انکے پاس appearنہیں ہوا۔ کل کی اطلاع ہے کہ نواز شریف 24اگست کو لندن جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات خوف ناک تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ محسوس ہو رہا ہے کہ پوری تیاری سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو NABکے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قانون اپنا راستہ اختیار کریگا اور مسلم لیگ (ن) سیاسی راستہ اختیار کریگی، جس سے تصادم ناگزیر ہو جائیگا۔ مسلم لیگ کے انتہائی سنیئر سیاستدان، سابق وزیرِ داخلہ اور سیاست میں انتہائی معتبر نام جن کا نام طویل سیاست کے دوران کبھی کوئی کرپشن، اقربا پروری اور میرٹ کے خلاف جانے میں کبھی نہیں رہا، آج شام پریس کانفرنس کر رہے ہیں جو ملک کی سیاسی صورتحال، کابینہ میں نہ شامل ہونے کی وجہ اور مسلم لیگ (ن) کی اندرونی سیاست پربات کرینگے۔ یہ فیصلہ انھوں نے مجبور ہو کر کیا ہے جب پرویز رشید نے ان پر بہت سے الزامات لگائے ہیں، یہ پریس کانفرنس ملک کی سیاست میں بڑا relevantرول ادا کریگی۔ ساتھ میں یہ خبر ہے کہ نواز شریف نے ان کی پریس کانفرنس کا رد عمل دینے کیلئے وزیرِاعظم اور 4وفاقی وزراء کو رائیونڈ طلب کر لیا ہے۔اس تصادم کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ شہباز شریف نے پارٹی کے عہدیداروں اور ذمہ داروں کو تنبیہ کیا ہے کہ اداروں کے خلاف ایسا کوئی بیان نہ دیا جائے جس سے اداروں میں تصادم کا شائبہ بھی ہو۔ کل پورے دن ملک اس افواہ کی زد میں تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر اور انتہائی محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس فائل کیا جا رہا ہے حالانکہ بعد میں اٹارنی جنرل اور ہر ایک نے تردید کی مگر اگر دھواں ہو گا تو آگ ضرور ہو گی۔ یہ بھی ایک بہت بڑے تصادم کا خدشہ ہے جو اداروں کے درمیان ہو گا۔ پوری قوم عدلیہ کے ساتھ ہے اس کے بارے میں اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ پورے جمہوری نظام کے لپیٹے جانے کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خور شید احمد شاہ بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو اس کے ذمہ دار میاں محمد نواز شریف ہوں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور ملک کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ جمہوریت چلتی رہے لیکن اس صورت میں میاں محمد نواز شریف کو مزید قانونی گرفت سے بچنے اور سیاست میں واپس آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ وہ تصادم کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اس معاملے پر تقسیم نظر آتی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ٹکراؤ یا تصادم کی پالیسی کے حامی نہیں ہیں۔ انہوں نے پہلے بھی تصادم سے گریز کا درست مشورہ دیا تھا اور وہ اب بھی یہی کوشش کرینگے کہ میاں محمد نواز شریف کو اس راستے پر چلنے سے روکیں مگر اطلاعات یہ ہیں کہ ان دونوں رہنماؤں کو پالیسی معاملات سے دور کر دیا گیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان معاملات کو سنبھالنے کیلئے اپنا موقف کھل کر بیان کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ وہ ایک ایسے سیاست دان ہیں، جن پر دیگر الزامات تو عائد کئے جا سکتے ہیں لیکن ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ اپنا موقف نہ صرف کھل کر بیان کرتے ہیں بلکہ وہ اس پر قائم بھی رہتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کے موقف سے اختلاف رکھنے والی اور تصادم کی پالیسی کی حامی لابی مسلم لیگ (ن) میں بہت مضبوط ہے اور وہ اس پالیسی پر عمل درآمد کیلئے سیاسی حکمت عملی بھی وضع کر چکی ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی یہ ہو گی کہ میاں نواز شریف عدالت اور نیب میں پیش نہ ہوں اور عوامی رابطہ مہم چلائیں اور دوسری طرف آئین میں بعض ترامیم کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کئے جائیں۔ مجوزہ آئینی ترامیم عدالتوں کے بعض اختیارات میں کمی، مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں پر تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار پارلیمنٹ کو دینے، آئین کے آرٹیکلز 62اور 63میں ترامیم اور آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت یہ چاہے گی کہ مسلم لیگ (ن) آئین میں اس طرح کی ترامیم کرے لیکن اداروں کے ساتھ تصادم کا ماحول پیدا نہ ہو اور سسٹم چلتا رہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کی اس خواہش کی تکمیل ضروری نہیں کہ اس کی مرضی کے مطابق ہو کیونکہ سیاسی حالات پر اس کا مکمل کنٹرول نہیں ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) بھی یہی کوشش کرے گی کہ آئینی ترامیم تک ٹکراؤ یا تصادم کی کیفیت پیدا نہ ہو مگر یہ بھی اس کے بس میں نہیں ہے کیونکہ نیب ریفرنسز کے معاملہ اسے ٹکراؤ سے زیادہ دیر تک گریز کی مہلت نہیں دے گا اور اس طرح کی آئینی ترامیم پر اداروں کی طرف سے ردعمل بھی آ سکتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ڈائیلاگ صرف ایک شخص میاں محمد نواز شریف کو بچانے کے لئے کیوں ہو۔ آصف علی زرداری نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی جگہ صرف پارلیمنٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی بھی فیصلے پر ڈائیلاگ کرنے کے حامی نہیں ہیں اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ میاں محمد نواز شریف اس صورت حال سے نکل سکیں۔ ایک طرف میاں محمد نواز شریف اپنے بچاؤ اور سیاست میں واپسی کے لئے ایسی حکمت عملی پر گامزن ہیں، جس کی چوہدری نثار اور شہباز شریف جیسے لوگ نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں۔
بلکہ خطرناک نتائج سے بھی متنبہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت میاں نواز شریف کو اپنی طرف سے کچھ نہ دینے اور ان سے آئینی ترامیم کرانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ یہ حکمت عملی بھی مسلم لیگ (ن) اور اداروں کے مابین کسی ٹکراؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو گی بلکہ ٹکراؤ کے لئے مزید حالات پیدا کرے گی۔ تیسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا آئندہ کا لائحہ عمل بھی بہت اہم ہے۔ عمران خان نے پاناما کیس کو حتمی نتیجے تک پہنچانے اور قانون کی حکمرانی کے لئے تنہا جنگ لڑی ہے۔ عمران خان اس وقت بہت بڑی سیاسی طاقت ہیں۔
اس وقت ان سے زیادہ کسی کی عوامی مقبولیت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی کی وجہ سے حالات جس طرف جا رہے ہیں، کیا عمران خان سسٹم کو بچا سکیں گے اور آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو واحد اکثریتی جماعت کے طور پر کامیابی دلا سکیں گے۔ عمران خان نے اب تک سیاست میں بہت اچھا کام کیا ہے لیکن کوئی بھی شخص آج کے زمانے میں محمد بن قاسم نہیں ہو سکتا کہ اکیلے تلوار چلاتا پھرے۔ اس وقت تحریک انصاف کی اندرونی صورت حال یہ ہے کہ اس میں کئی گروہ ایک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں پارٹی زیادہ موثر نہیں ہے۔ صرف ہجوم سے حالات کا رخ نہ تو اپنی مرضی سے موڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کچھ اور طریقے ہوتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لئے کئی سیاسی اور تنظیمی چیلنجز درپیش ہیں۔ بہرحال اس وقت حالات تصادم کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

تازہ ترین