• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل باجوہ نے چند روز قبل آئی ایس پی آر میں زیر تربیت طلباء طالبات سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان داعش سے دور رہیں، ان کا نوجوانوں کے لئے یہ بڑا ہی اچھا پیغام ہے لیکن اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ ان سے یہ بھی کہہ دیتے کہ وہ اپنے اپنے اداروں میں بڑھتی ہوئی منشیات کے استعمال کی لعنت سے بھی دور رہیں۔ ان دونوں چیزوں میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں امراض یا مسائل ہی قوموں کو تباہ کرنے کا باعث بنتے ہیں، ہمارے سیاسی حکمرانوں کی ترجیحات میں یہ مسائل حل کرنے کے دعوے بیانات کی حد تک ہوتے ہیں لیکن ابھی بھی اگر کسی ادارے کا خوف اور احترام ہے تو وہ یقینی طور پر پاک آرمی پر ہے۔ عدلیہ کا احترام بھی بہت ہے مگر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پچھلے دنوں اپنی نااہلی کے بعد اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ جاتی امرا واپس آتے ہوئے ہماری عدلیہ اور ججوں کا جو احترام کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 96گھنٹے (چار روز) کے اس سفر میں پہلے تو انہوں نے ذومعنی الفاظ میں دونوں اداروں کو اپنی جذباتی تنقید کا ہدف بنایا ۔ شاید انہیں احتجاج کی پہلی رات کوئی ڈرائونا خواب آگیا ہو۔ بہرحال بات ایسے ہی ادھر چلے گئی، واپس آتے ہیں آرمی چیف جنرل باجوہ کے داعش کے بیان کی طرف !اس بیماری سے بچنے کی دوا بھی ہماری پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں کے پاس ہے۔ پچھلے 30برس میں پاکستان میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ٹرائیکا کے زیر نگرانی پاکستان کی قومی سلامتی کو جن جن خطرات سے دوچار کیا گیا وہ سب کے سب ہمارے سیاسی اور عسکری حکمرانوں کی نااہلی اور عدم توجہی کی طرف بڑھتی کسی جگہ اقتدار کو طول دینے کے لئے دینی مدارس کے نظام کو ٹھیک کرنے پر توجہ نہ دی گئی اور کسی جگہ عالمی ایجنڈے کے تحت کرسی کو مضبوط رکھنے کے لئے کئی شرائط کے تحت اس شعبہ کو قانونی گرفت میں لانے سے گریز کیا گیا۔ ایک زمانے میں پاکستان میں نہ تو طالبان کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی داعش وغیرہ کا!پھر ملک میں اقتصادی نظام غیر متوازن ہونے کی وجہ سے ملک میں بےروزگاری پھیلتی ہی چلی گئی اور اس سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی قوتیں فعال اور سرگرم ہوگئیں۔ اس کیساتھ بنیادی قوانین موثر ہونے کے باوجود غیر موثر کئے جانے کی وجہ سے پاکستان منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اسلحہ اور کرنسی کا محور بن گیا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اسلام آباد میں حکمرانی کرنے والوں نے کبھی داخلی استحکام پر وہ توجہ نہ دی جو انہیں دینی چاہیے تھی۔ اس سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں برباد ہوتا گیا۔ اس وقت سرمایہ کاری اور بزنس کے لئے بہترین ملک ہونے کے باوجود دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی مخصوص لابیوں نے خوب خراب کیا۔یہ سلسلہ پاکستان میں سیاسی اور فوجی ادوار میں جاری رہا، اسلئے کہ جس ملک میں قومی وسائل اور اختیارات پر صرف 2فیصد سے 4فیصد افراد یا خاندانوں کی حکمرانی یا گرفت ہے جبکہ 80فیصد افراد بے چارے صرف اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے زندہ ہیں، باقی 16سے 18فیصد لوگ مڈل کلاس سے لوئر مڈل کی طرف گرتے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اخباری بیانات سے ہٹ کر عملی طور پر قومی معاشی مسائل اس طرح حل نہیں ہوسکے جس کی قوم کو توقع تھی۔ اس کے باعث ملک میں ٹیکسٹائل اور ایس ایم ای سیکٹر عملاً ایک بڑے اقتصادی بحران سے دو چار نظر آرہے ہیں۔ ملکی برآمدات کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ تجارتی خسارہ میں مسلسل اضافہ ایک نئے بحران کے اشارے دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں نوجوان منشیات کے استعمال اور داعش جیسے بے نام گروپوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے تو کہاں جائیں گے۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ ملک وقوم کا مورال بلند کرنے کیلئے پاک فوج کو اپنی ذمہ داریوں میں ان مسائل کو حل کرنے کا اضافہ کرنا ہوگا۔ ہم سے زیادہ بہتر پاک آرمی کے قائدین جانتے ہیں کہ لوگوں کے جذبے کو متزلزل کرنے کیلئے دشمن ممالک کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں۔ اسلئے وہ بےروزگار نوجوانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا تے ہوئے سب وہ کام کرتے ہیں جس میں ہمارے نوجوانوں کو دلچسپی ہوتی ہے۔ خدارا قوم کو زوال اور تباہی کی طرف جانے سے روکنے کیلئے اسلام آباد پر قبضہ نہیں بلکہ قوم کے دلوں پر راج کرنے کیلئے ان اقدامات اور تجاویز کا نوٹس لیں جس سے ہر طرف سے انہیں خوش آمدید کہنے کی آوازیں بلند ہوپائیں۔

تازہ ترین