• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا کا نظام اکھڑ گیا ہے، اگرچہ امریکہ دُنیا کی واحد بڑی طاقت ہے اور اس کو روس پر کئی معاملات میں برتری حاصل ہے، مثال کے طور پر روس کے پاس کوئی معیاری طیارہ بردار جہاز نہیں ہے جبکہ امریکہ کے سات سے آٹھ بحری بیڑوں میں طیارہ بردار جہازوں کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک ایسا طیارہ بردار جہاز بھی ہے جو اگرچہ ہے تو چھوٹا مگر بجلی اور مقناطیسی لہروں کے ذریعے رن وے بنا دیتا ہے اور اس پر بڑے سے بڑا جہاز اتر جاتا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو یہ ٹیکنالوجی دینے کی پیشکش کی ہے ، بھارت اپنے پاس طیارہ بردار ہونے کا جو دعویٰ کرتا ہے وہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے بحری اڈے اور تغیر موسم کی ٹیکنالوجی، اُن کی دُنیا کے ہر مقام پر رسائی کی صلاحیت مانی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود روس اور چین نے امریکہ کو کئی طریقوں سے چیلنج کردیا ہے۔ معاشی میدان میں اور کئی جنگی میدانوں کے ساتھ ساتھ خلاء میں بھی امریکہ کو چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ معاملہ ایک خاص اور قابل قبول رفتار سے چل رہا تھا کہ شمالی کوریا میدان میں آگیا اور اس نے امریکہ پر ایٹمی حملہ کی دھمکی دیدی جس پر امریکہ میں بے چینی پھیل ہوگئی، کیونکہ شمالی کوریا نے بین البراعظمی میزائل ہواسونگ ۔14 جو واقعی امریکہ کی سرزمین کو نشانہ بنا سکتا ہے، کا کامیاب تجربہ 14 اگست 2017 کوکیا، جب امریکہ نے اس کی تحقیق کی تو اُس کو یہ پتہ چلا کہ شمالی کوریا نے میزائل میں جو انجن استعمال کیا ہے وہ RD-250 کہلاتا ہے جس کی فیکٹری امریکہ کے دوست ملک یوکرائن میں موجود ہے۔ یہ فیکٹری اور انجن کا یہ ڈیزائن 1960 کا ہے۔ یہ انجن اتنا پرانا ہے کہ سوویت یونین کے پاس اس کا کنٹرول نہیں ہے اور بقول ان کے ترجمان کے اُن کے اس انجن پر راکٹ یا میزائل استعمال نہیں ہوتے مگر نیویارک ٹائمز کی 9 اگست 2014کی تحقیق کے مطابق یہ انجن بہرحال یوکرائن سے حاصل کیا گیا مگر اس کو کس نے اتنا جدید بنایا یہ سوالیہ نشان ہے، امریکہ کو شبہ ہے کہ میزائل کےانجن میں خاصی تبدیلی کی گئی ہے اور اس کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے سائنسدانوں، انجینئروں اور باقاعدہ ایک نظام کی ضرورت ہوتی ہے، یہ سب کس نے فراہم کئے، اُن کا کہنا ہے کہ چین اور روس پر کی مدد کے بغیر شمالی کوریا جہاں غربت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ، جس قسم کا فسطائی نظام حکومت ہے وہ کسی کو آزادی سے جینے نہیں دے رہا۔ایک خاتون نے انتہائی دردناک انداز میں بتایا کہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کس طرح دریائے گوبی عبور کیا اور مرتے مرتے بچ کر وہ پھر چین پہنچے ، اب اُن کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب چین ان کو شمالی کوریا کے حوالے کردے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ایک ماہ میں مشکل سے ایک آدمی کو 30 ڈالرز کی رقم میسر آتی ہے مگر شمالی کوریا دفاعی میدان میں پیسے بیدریغ خرچ کررہاہے۔ نیویارک ٹائمز کا خیال ہے کہ شمالی کوریا نے یہ انجن بلیک مارکیٹ سے خریدا ہوگا، جو یوکرائن کی ڈنیپرو فیکٹری میں تیار ہوا، اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے چین کو اس معاملے سے بری الزمہ قرار دے دیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے البتہ اشارہ کیا ہے کہ پیسے کی سپلائی، تکنیکی مدد روس اور چین کی طرف سے ضرور ہوئی ہوگی، کیونکہ امریکہ نے شمالی کوریا کا میزائل سائبر ٹیکنالوجی سے گرا دیا تھا مگر دو سال کے عرصے میں میزائل کے میدان میں اس نے جو ترقی کی ہے وہ کسی ترقی یافتہ ملک کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ تحقیق کے مطابق ڈنیپرو فیکٹری یوکرائن کی بڑی فیکٹری ہے جس نے زمانۂ سردجنگ میں ایسے میزائل تیار کئے جو موت کا پروانہ کہلاتے تھے اور دیوقامت میزائل SS-18 بھی تھا۔ بہرحال یوکرائن کی آزادی کے بعد بھی یہ میزائل روس کے پاس رہا۔ سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ یہ نہ سمجھا جاسکے کہ شمالی کوریا میزائل کے میدان میں کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ جبکہ امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ روسی صدر پیوٹن کے بغیر شمالی کوریا کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسا میزائل بنائے اور امریکہ کو چیلنج کر دے اور کہے کہ اگر ہمیں ایٹمی قوت تسلیم نہیں کیا یا جنوبی کوریا کی حمایت سے ہاتھ نہ اٹھایا تو ہم امریکہ پر حملہ کردیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ابھی شمالی کوریا کے پاس ہواسونگ ۔14 کتنے میزائل اسٹاک میں ہوں گے۔ ایک یا دو جو امریکہ پیٹریاٹ یا آئرن ڈرون دفاعی نظام سے روک سکتا ہے اگر وہ 100 کی تعداد میں ہوئے اور ایکدم 50 بھی داغ دیئے گئے تو امریکہ کا دفاعی نظام اُسے نہیں روک سکے گا۔ امریکی دانشور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صدر کلنٹن اور بش جونیئر اور بش سینئر اپنے دور حکومت میں کیا کررہے تھے کہ آج امریکہ کو اس قسم کے خطرے کا سامنا ہے۔ اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوکرائن میں اتنی بدانتظامی ہے اور پیسے کی قلت ہے ممکن ہے کہ ڈنیپرو فیکٹری نے ہی یہ انجن شمالی کوریا کو فروخت کئے ہوں۔ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے یہ دھمکی دی ہے کہ وہ اگر امریکی سرزمین کو نشانہ نہ بھی بنائے تو وہ بحراوقیانوس میں واقع امریکی بحری و فضائی اڈے گوام کو ضرور نشانہ بنا دے گا جہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ امریکی رہتے ہیں۔ گوام امریکی ریاست مریانہ کا حصہ ہے۔ یہاں فضائی اڈہ، ایرا بندرگاہ اور امریکہ کے شاید ایٹمی اثاثہ جات بھی موجود ہیں۔ یہ امریکہ کے لئے ایک خطرناک دھمکی ہے اور شمالی کوریا کے صدر مزاجاً ایسے ہی ہیں کہ وہ حملہ کرسکتے ہیں۔ ظالم اتنے ہیں کہ ایک جنرل کو توپ سے اڑا دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر شمالی کوریا آہستہ آہستہ اپنی دفاعی صلاحیت بڑھاتا چلا گیا جبکہ امریکہ روس اور چین کو ہدف بنائےہوئے ہیں۔ امریکہ نے جنوبی بحر چین میں اپنی بحری قوت کا 60 فیصد جمع کر رکھا ہے اور چین نے جزائر اسپارٹلے اور پیراسیل پر ملکیت کا دعویٰ کر رکھا ہے اور وہاں ایک جزیرے پر الیکٹرو میگنیٹک رن وے بھی بنا لیا ہے۔ امریکہ بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک کو چین کے خلاف اکٹھا کررہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے روس کو گھیرنے کے لئے پولینڈ میں ٹینکوں کی بڑی تعداد پہنچا دی ہے۔برطانیہ میں ایٹمی ہتھیاروں کو جمع کردیاہے اور جدید ترین بمبار طیارے بھی لاکھڑے کئے ہیں مگر شمالی کوریا اُن کے منصوبے میں رخنہ ڈال رہا ہے۔ اگرچہ ہواسونگ 14 میزائل کے تجربے پر چین نے بھی شمالی کوریا پر امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں کی حمایت کی ہے مگر بہرحال شمالی کوریا روز بہ روز خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ ایک غیرذمہ دار ملک ہے اور دھونس سے دُنیا پر غلبہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ روس اور چین ذمہ دار ممالک ہیں وہ کسی قسم کی غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے مگر شمالی کوریا کسی قسم کی ذمہ داری سے مبرا ہے۔ اگر چین اور روس کی یہ حکمت عملی ہے کہ امریکہ کو شمالی کوریا کے ذریعے دبائو میں لایا جائے تو یہ اُن کی ایک کامیاب حکمت عملی ہے۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

تازہ ترین