• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ سے نااہلی کے فیصلے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی پارٹی کے اختلاف کے باوجود جی ٹی روڈ سے جاتی امرا جانے کا فیصلہ کیا ۔ گو اسلام آباد سے لاہور تک یہ سفر انہوں نے چار دن میں مکمل کیا لیکن ان چار دنوں میں انکے لہجے کے اتار چڑھائو کااندازہ بعض رپورٹس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چار دنوں میں چار سو سے زیادہ مرتبہ سپریم کورٹ اور فوج کے خلاف گرجے۔ نواز شریف جونہی سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے اُسی لمحے اُنہیں پتہ چل گیا کہ نظریات کیا ہوتے ہیں، انقلاب کسے کہا جاتا ہے اور اس چیز کا اظہار انہوں نے ساڑھے تین سو کلو میٹر کے سفر کے دوران تکرار کے ساتھ کیا اور دو ہزار سے لیکر پندرہ ، بیس ہزار لوگوں سے سوال کرتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا ، مجھے کیوں نکالا ؟ عوام نے مجھے اسلام آباد بھیجا اور پانچ ججوں نے مجھے گھر بھیج دیا ، کیا آپ سب اس فیصلے کو مانتے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ کھڑے کروا کر یہ گواہی لیتے رہے کہ اُن کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا ۔ مجھے اس لئے نکالا کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی، بھلا کوئی اپنے بیٹے سے بھی تنخواہ لیتا ہے ،مجھے نکال کر 20کروڑ عوام کی توہین اور ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا ۔ اب وزارت عظمیٰ نہیں چاہئے نہ میں آپ کے پاس اپنے آپ کو بحال کرانے کیلئے آیا ہوں، 70سال سے کھیل تماشے ہورہے ہیں، اب یہ کھیل تماشے نہیں چلنے دیں گے۔ ملک کے اندر انقلاب لانا ہے، آئین بدلنا ہوگا، کیا آپ میرا ساتھ دو گے، میری اگلی کال کا انتظار کرو، جب میرا پیغام پہنچے تو آپ کو میرے قدم کے ساتھ قدم ملا کرمیرا ساتھ دینا ہے ۔
عجب ’’ج‘‘ کی یہ غضب کہانی ہے ج سے جاتی امرا، ج سے جاسم شہزادہ ۔ ج سے جندال ، ج سے جدہ، ج سے جلا وطنی۔ ج سے جے آئی ٹی اور ج سے جلد اور جیل —لیکن ہم اپنے کالم کو ج سے صرف جی ٹی روڈ تک محدود رکھتے ہیں ۔گو نواز شریف کا پسندیدہ موضوع ہمیشہ موٹر وے رہا اور نااہلی سے پہلے تک گزشتہ چار برس سے تو ملک کے کونے کونے میں موٹر وے اس طرح بانٹ رہے تھے جیسے بچوں میں شیرینی بانٹی جاتی ہے لیکن چونکہ ن لیگ کے بارے میں اپوزیشن کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے یعنی جی ٹی روڈ کو جو شہر لگتے ہیں وہاں ان کی اکثریت ہے اور نواز شریف نے اپنی ہی حکومت میں جی ٹی روڈ مارچ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جی ٹی روڈ سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ گو جی ٹی روڈ پر مخالفین کی طرف سے ان کے خلاف نعرے بھی گونجے مگر پندرہ بیس ہزار لوگ جو اختتام پر موجود تھے اُن کے علاوہ ملک کے اندر باقی جو 20کروڑ سے زائد عوام ہیں انہوں نے نواز شریف کے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘آیئے آپ بھی سنئے۔
نواز شریف صاحب آپ نے اسلام آباد سے لاہور تک شاہی سواری جس میں 12 سوگاڑیاںتھیں ،تمام شہروں میں42ہزار سرکاری ملازمین کی مشینری اس شاہی سواری کو آسان بنانے میں لگے ہوئی تھی ، ان تمام سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال سے خزانے کو 20کروڑ56لاکھ 90 ہزار روپے کا جو ٹیکہ لگا اور جی ٹی روڈ کے مشن پر ایک ارب 45کروڑ 56ہزار روپے کا جو بوجھ عوام نے برداشت کیا وہ تو کڑوا گھونٹ پی لیا گیا لیکن انہیں اصل دُکھ یہ ہے کہ آپ نے بدعنوانی اور اپنے منصب کے غلط استعمال کے ذریعے قومی خزانے کو لوٹا ، اور بدعنوانی کے ذریعے حاصل کی گئی اس رقم کو بچانے کیلئے اپنے بچوں کے نام پر جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنائیں۔ الیکشن کمیشن ، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں اور قوم کو اپنی حقیقی آمدنی اور اثاثوں کی تفصیلات سے مکمل طور پر گمراہ کیا ۔ گو شواروں میں غلط معلومات درج کر کے اپنی سیاہ دولت کو چھپانے کی کوشش کی ۔ اپنے سمدھی اسحاق ڈاراور دیگر بدیانت سرکاری ملازمین کی معاونت سے منی لانڈرنگ کی۔ گزشتہ تیس برس کے دوران ٹیکس اکٹھا کرنے والے ریاستی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی ۔ پاناما کیس منظر عام پر آنے کے بعد پارلیمان اور قوم سے اپنے خطاب میں صریحاً جھوٹ بولا اور عدالت عظمیٰ کے رو برو سچ بولنے کی بجائے اسے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ بچوں کو عدالت کی کارروائی اور جے آئی ٹی تحقیقات میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹ ڈالی اور عدالت عظمیٰ میں جعلی دستاویزات جمع کرائیں۔ آئین کے آرٹیکل 62،63کی رو سے آپ کسی طرح بھی صادق اور امین کے پیمانے پر پورا نہیں اترتے۔ آپ سے پندرہ ماہ عوام اور عدالت جواب طلب کرتےرہے مگر جھوٹ کے سوا کچھ نہ دیا ۔آپ یو اے ای میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی کے چیئرمین تھے ، 9سال تک کروڑوں روپے آپ کے نام جاری ہوتے رہے اور آپ چھپاتے رہے۔ آپ کے خلاف 26ریفرنس دائر ہیں ، شریف فیملی کی 16آف شور کمپنیاں سامنے آئیں ، وعدے کے باوجود لندن اپارٹمنٹس کی ملکیت کی دستاویزات اور منی ٹریل دینے میں ناکام رہے اور 80ملین ڈالر کے فلیٹس کے جھوٹ کو بچانے کیلئے300 ملین خرچ کر ڈالے۔وزیراعظم ہوتے ہوئے دوسرے ملکوں سے اقامہ لیا ۔
آپ پر 66قومی اداروں کی نجکاری میں 3سو ارب روپے کی مبینہ کرپشن کے الزامات ہیں جن میں ڈی جی خان سمیت، ملت ٹریکٹرز، ایم سی بی اور پنجاب کی 5شوگر ملزوغیرہ شامل ہیں ۔ لاہور تا کراچی موٹروے میں 14ارب کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ ابھی تو نیلم جہلم پروجیکٹ پر اخراجات جو 600تک پہنچ چکے ہیں اور مکمل نہیں ہوئے اُن کی بات نہیں کرتے ۔ چونکہ ن لیگ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے اور جی ٹی روڈ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ امید ہے عوام کی طرف سے کیوں کا جواب مل گیا ہے ویسے تو جنرنلزم میں چھ ’’ک‘‘ کا جواب تلاش کیا جاتا ہے ۔ ابھی صرف ایک ’’ ک ‘‘ کافی ہے ۔ آخر میں ہمارے دوست سہیل آفندی نے ایک سوال اٹھا یا ہے کہ صدر کے پاس 58ٹو بی کااختیار تھا جس کے استعمال سے وزیراعظم اور اسمبلی کو گھر بھیج سکتا تھا ۔ یہ ختم کر کے ایک طرح سے آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے کیونکہ اگر ایک سیاسی جماعت کی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہے تو کوئی بھی ترمیم کرسکتی ہے اور دو تہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم کے خلاف تو تحریک عدم اعتماد بھی نہیں لائی جا سکتی اور یہ وزیراعظم تو بادشاہ جیسے فرمان ہی جاری کر ے گا۔
چلتے چلتے مغل اعظم فلم میں شہنشاہ جہانگیر کا کردار ادا کرنے والے دلیپ کمار کا ایک جملہ جو انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس فلم کے ختم ہونے کے چھ ماہ تک میں اپنے آپ کو شہنشاہ جہانگیر ہی سمجھتا رہا۔ میری حالت پاگلوں جیسی ہوگئی تو مجھے ماہر نفسیات سے 6ماہ اپنا علاج کروانا پڑا۔ یہ فلم توتین گھنٹے کی تھی مگر آپ 30سال اقتدار میں بادشاہت کرتے رہے ۔ اُن کو اِن کے تاریخی مشیر نے دنیا میں انسانی تاریخ اور بادشاہت کی تاریخ کے بارے میں ضرور بریف کیاہوگا ۔ اس کے بعد بھی انقلاب کے خواب دیکھنا ان کا بنیادی حق ہے؟

تازہ ترین