• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ سائے کی طرح نواز شریف کے ساتھ رہنے والے سیاسی رفیق سے زیادہ ذاتی دوست چوہدری نثار علی خان ایک دن اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ جاری کردینگے، بیچ منجدھار میں اپنے دکھ سکھ کے ساتھی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ جوشخص قومی اسمبلی کے ایوان سے لے گاڑی تک ہمیشہ نواز شریف کے ساتھ والی نشست پر براجمان رہا ہو وہ سپریم کورٹ سے نا اہلی کا پروانہ ہاتھ میں تھامے شہر اقتدار سے رخصت ہونے والا اپنے وزیر اعظم کو الوداع تک کہنے پنجاب ہائوس نہیں آ سکے گا۔ کیا کوئی یقین کرسکتا تھا کہ مسلم لیگ ن میں شریف برادران کے بعد سب سے طاقت ور سمجھے جانے والے کی اَنا 32سالہ دیرینہ دوستی پر غالب آجائے گی۔ کیا کوئی شک بھی کر سکتا تھا کہ اپوزیشن رہنماوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دینے والا چوہدری اپنے قائد کو سیاسی زندگی کے خاتمے کے ممکنہ فیصلے کی صورت میں بھی سر تسلیم خم کرنے کی نصیحت کرے گا۔ کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ جس لیگی رہنما کی مرضی کے بغیر ملک کے اہم ترین عہدوں پر تقرری تک نہ کی جاتی تھی اس کی شمولیت کے بغیر ن لیگ کی وفاقی کابینہ بھی تشکیل پا جائے گی۔ کیا کوئی ایک لمحے کو بھی فرض کرسکتا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں جس جہاندیدہ سیاست دان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئے آج اسے پارٹی قیادت سے اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑے گی اور کیا کوئی تخیل میں بھی لا سکتا تھا کہ جواصول پرست رہنما اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کی تلقین کرتا رہا ہو وہ اپنی حکومت کی بجائے مخصوص ادارے کی ترجمانی کرے گا۔ یقیناً یہ سب نا ممکن لگتا ہے لیکن سیاست کو اسی لئے ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے جس میں ذوالفقار مرزا جیسا دست راست ایک دن خم ٹھونک کر آصف زرداری کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ جس میں بابر اعوان اس کپتان کی ٹیم کا حصہ بننے کیلئے سینیٹرشپ ٹھکرا دیتا ہے جسے وہ سیاست دان بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔ جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین کا دفاع کرنیوالی عائشہ گلا لئی انہی پر سنگین الزامات عائد کر دیتی ہے۔ جس میں پرویز مشرف کو قائد اعظم ثانی قرار دینے والی ماروی میمن نواز شریف کی ریلی میں گاڑی کی چھت پر بیٹھ کر نعرے لگانے والوں میں سبقت لے جانی کی کوشش کرتی ہیں۔ ممکنات کا یہی کھیل ہے جس میں کل تک کپتان کے لتے لینے والافواد چوہدری آج ان کا سب سے بڑا ترجمان بن جاتےہیں۔ جس میں پرویز مشرف کے گن گانے والے دانیال عزیز آج خود کوآمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والا سب سے بڑا استعارہ قرار دیتا ہے۔ جس میں مولانا فضل الرحمان سے الفت رکھنے والااعظم سواتی اپنے پرانے ساتھی اکرم خان درانی پر مبینہ کرپشن کے الزامات عائد کرتا ہے۔ جس میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے والے اکبر ایس بابر اسی جماعت کے خلاف انصاف کے حصول کیلئے جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہے۔ جس میں نہال ہاشمی جیسا سینیٹر زیادہ وفاداری دکھانے کے چکر میں پارٹی رکنیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جس میں قائد تحریک کو نجات دہندہ اور اپنا سر پرست کہنے والا مصطفیٰ کمال اسی قائد کوقاتل، وطن فروش،غدار اور جانے کیا کچھ قرار دیتا ہے۔ جس میں قائد تحریک کی آواز پر آنکھیں بند کر کے لبیک کہنے والا فارق ستار اسی قائد سے لاتعلقی کا یقین دلانے کیلئے ہر جتن کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جس میں شیخ رشید کو توہین آمیز حیثیت دینے والا عمران خان اسی شیخ صاحب کوسر آنکھوں پربٹھاتا ہے۔ ممکنات کے اسی کھیل میں اگر شریف خاندان کے فرد سمجھے جانے والے چوہدری نثارآج اپنوں سے نالاں ہیں تو اس کی بھی وجوہات ہیں،ان سطور کی اشاعت تک کچھ حقائق سے وہ خود بھی نیوزکانفرنس میں پردہ اٹھا چکے ہوں گے۔ درحقیقت اس کہانی کا آغازگزشتہ عام انتخابات کے دوران ہی ہو گیا تھا جب پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں ان کی رائے کو نظر انداز کیا گیا۔ چوہدری نثار نے پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف راولپنڈی کے صوبائی حلقے سے شیر کی بجائے گائے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا۔ وہ پارٹی قیادت کو اپنا آپ دکھانے کیساتھ اس وعدے کی تکمیل بھی چاہتے تھے جسکے تحت انہیں وزارت اعلیٰ سونپی جانی تھی تاہم وہ وعدہ وفا نا ہوا۔ ٹیکسلا سے آبائی نشستوں پر شکست نے پارٹی قیادت کے نزدیک ان کی اہمیت کو کم کر دیا۔وفاقی کابینہ کے قلمدانوں کی تقسیم کے معاملات بھی ان سے بالا بالا طے کر لئے گئے حتی کہ وزارت خارجہ کا قلمدان لینے کی ان کی خواہش کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ دوست وزیر اعظم کیساتھ کچھ فاصلہ پیدا ہوا تو پارٹی کے دیگر بالخصوص دو تین رہنمائوں نے ان کی جگہ لینے کی کوششیں شروع کرد یں۔ وزیر اعظم نواز شریف کبھی راستہ بھول کر قومی اسمبلی میں آجاتے تو ن لیگی رہنماوں میں وزیراعظم کی ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کی کشمکش شروع ہو جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ پرویزمشرف کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے معاملے میں بطور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے وزیر اعظم کو اعتماد میں لئے بغیر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے مل کرعسکری قیادت کو کچھ یقین دہانیاں کرا دیں جو میاں صاحب کو نامناسب لگیں۔ لاہوری کشمیری گروپ کے نام سے پکارے جانیوالے مخالف وزراء ان کیخلاف پروپیگنڈا کرنا لگے جس کی بھنک انہیں بھی پڑ گئی۔ خواجہ آصف کیساتھ تو انکے اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور چوہدری نثار نے اپنے قریبی حلقوں میں ان کے اخلاقی کردار پر بھی سوالات اٹھا دئیے۔ قومی سلامتی پالیسی کی فنڈنگ،بجٹ کی تیاری اور پارلیمنٹ میں اہم امور نمٹانے میں کلیدی کردار جیسے معاملات پران کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بھی اختلافات پیدا ہو گئے۔ دھرنے کے دوران انکے کردار پر شکوک ظاہر کئےگئے جس پرانہوں نے وزیر اعظم کو احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ طالبان سے مذاکرات کا جو عمل انہوں نے شروع کیا اس سے انہیں الگ کر کے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی قائم کر دی۔شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ ان کی مشاورت کے بغیرکیا گیا جس کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی اورقومی سلامتی کمیٹی کی اجلاسوں میں شرکت بند کردی۔ کراچی ائرپورٹ پرحملہ ہوا تو طبیعت کی خرابی کے باوجود وزیر اعظم نے انہیں کراچی پہنچنے کی ہدایات دیں جبکہ اپوزیشن کی سخت تنقید پرپارٹی نے ان کا دفاع نہ کیا۔ وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وطن چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تاہم پارٹی قیادت نے انہیں منا لیا تاہم دلوں میں پیدا ہونیوالی کدورتیں ختم نہ ہو پائیں۔ ایان علی،ڈاکٹر عاصم سمیت دیگر شخصیات کے خلاف مقدمات اور رینجرز کی تعیناتی جیسے معاملات میں انہوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا اسی دوران اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ پر حکومت سے مک مکا کا الزام عائد کرنے اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے وزیر اعظم کی موجودگی میں جھڑپ جیسے واقعات نے اپوزیشن کوان کے خلاف شدید احتجاج کا جواز فراہم کردیا۔ مسلم لیگ ن نے انہیں ایک بار پھر تنہا چھوڑ دیا جس سے وہ پارٹی میں اجنبی بنتے گئے۔ مشاورتی اجلاسوں میں انہیں بلانا اور انہوں نے بغیر بلائے جانا بند کردیا۔ پاناما کے معاملے پر انہوں نے پارٹی قیادت کو سینئر رہنمائوں کے سامنے ’سچ‘ بتانے سمیت جو بھی مشورے دئیے انہیں کوئی اہمیت نہ دے گئی۔ ڈان لیکس پر انہوں نے غیر جانب داراورشفاف تحقیقات کا بیڑا اٹھا لیا۔ انہیں ہتھ ہولا رکھنے کے پیغامات پہنچائے گئے لیکن ان کا جھکائو دوسری طرف رہا جس کا خمیازدیگر افراد سمیت پرویزرشید کو بھی بھگتنا پڑا۔ پرویز رشید وہی بوجھ دل پر لئےپھررہے تھے جو انہوں نے اتارنے کی کوشش کی تو مذکورہ معاملات کے باعث جو لاوا چوہدری نثار کی ذات میں ابل رہا تھا وہ بالآخر پھٹ پڑا۔ چار سال جماعت میں اندرونی محاذآرائی اور چوہدری نثار کے معاملے پر خاموش تماشائی بنے رہنے والے جناب نواز شریف کو اب مزید تماشا دیکھنے کی بجائے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ یاد رکھیں کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے جس میں چوہدری نثار جیسا گھرکا بھیدی کوئی بھی لنکا ڈھا سکتا ہے۔

تازہ ترین