• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کے فوراً بعد پاکستان نے اس وقت کے وزیراعظم کے پہلے سرکاری دورے کے ذریعے سابقہ سوویت یونین کے برخلاف امریکا کو بطور دوست منتخب کیا۔ اس کے بعد سے خواہ یہ سیٹو تھا یا سینٹو، سوویت یونین کے خلاف خفیہ آپریشن کے لئے بڈھ بیر حوالے کرنا ہو یا 1979 میں افغانستان میں سوویت فوج پر فائر کرنے کے لئے اپنا کندھا فراہم کرنا ہو، پاکستان امریکا کا ساتھ ایک دوست کی طرح دیتا رہا ہے۔سوویت یونین کے خلاف خفیہ آپریشن کی وجہ سے پاکستان کو سابق سوویت یونین کی دشمنی اور جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس سے بھارت کو اس سے مزید قریب ہونے کا موقع بھی مل گیا۔ پاکستان کو 1971 میں دشمن کے اس غضب کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب پاکستان کے دوست پاکستان کے ٹوٹنے کا محض تماشہ دیکھ رہے تھے۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت فوج کی جانب سے جارحیت کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے، جن میں اکثریت پاکستان سمیت مسلم ممالک کی تھی، سیاسی و معاشی خطرے کےطور پر دیکھا۔ امریکا نے پاکستان کو دعوت دی کہ وہ افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے کے لئے اس کی مدد کرے۔ پاکستان نےوہ کردار بہت اچھی طرح ادا کیا اور اپنی فوج تعینات کر کے افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے کے لئے افغان مجاہدین کو منظم کیا۔ لیکن جنرل ضیا نے جو غلطی کی وہ یہ تھی کہ انہوں نے اس مہم میں اسلامی جذبات بھی داخل کر دیے جو آنے والے وقتوں میں عالمی سیاست اور سفارت کاری کے لحاظ سے الٹ نتائج پیدا کرنے والے تھے۔ امریکا نے افریقی عرب عسکریت پسندوں کو بھرتی کر کے انہیں تربیت دی، مسلح کیا اور فنڈز فراہم کیے تاکہ وہ افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر لڑیں اور پاکستان نے انہیں لاجسٹک اور بیس کیمپ فراہم کیے۔اس جنگ سے دیگر نتائج کے علاوہ افغانیوں کی پاکستان کی جانب بڑے پیمانے پر ہجرت کا آغاز ہوا جس سے پاکستان پر اضافی مالی بوجھ پڑا۔ سوویت افغان جنگ تک پاکستان نے زیادہ تر اپنی جی ڈی پی کی شرح افزائش بھارت سے زیادہ ہی رکھی ہوئی تھی۔ 2001 کے اختتام تک 40 لاکھ افغا ن مہاجرین تھے اور فروری 2017 میں یو این ایچ سی آر نے رپورٹ کی کہ 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان شہری اب بھی پاکستان میں ہیں۔ 1989 میں افغانستان سے سوویت یونین کی فوج کی واپسی کے ساتھ امریکا بھی خطے سے لوٹ گیا اور پاکستان کو لاکھوں افغان مہاجرین کا سماجی اور معاشی اعتبار سے بوجھ برداشت کرنے کے لئےاکیلا چھوڑ دیا۔ امریکا کا اپنے تخلیق کردہ مجاہدین کو واپسی کی حکمت عملی طے کیے بغیر چھوڑ دینے سے پاکستان سلامتی کی نازک صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ یہ بے روزگار مجاہدین پورے ملک میں پھیل گئے، جرائم اور دیگر فرقہ وارانہ جھگڑوں میں ملوث ہوگئے لیکن اس طبقے کو پیدا کرنے والا اس حقیقت سے لاتعلق رہا کہ یہ بے روزگار مجاہدین جب بھی موقع ملا تو ایک دن عفریت بن کر ابھر سکتے ہیں۔ 1992 میں سقوط کابل کے بعد افغانستان کے افق پر طالبان کے ابھرنے سے غیرملکی عسکریت پسندوںا ور پاکستانی مذہبی عسکریت پسندوں کو میدا ن میں ایک اور موقع ملا۔ ان کے نظریات اور اثرورسوخ پورے پاکستان میں پھیل گیا اور شہریوں، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف بلاروک ٹوک دہشت گرد آپریشن شروع ہوگئے۔ اب پاکستان 50 ہزار شہادتوں کے ساتھ دہشت گردی کا واحد متاثرہ ہے لیکن اس کے باوجود اس پر دہشت گردی کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ستمبر 2001 کے حملوں کے دوران 2996 افراد ہلاک ہوئے اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ان فوری اموات میں چار طیاروں میں (بشمول 19 دہشت گردوں) 265 افراد بھی شامل تھے، 2ہزار 606 ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں اور 125 پینٹاگون میں ہلاک ہوئے۔یہ ایک ریکارڈ کی بات ہے کہ 19 ہائی جیکرز میں سے 15 سعودی شہری، دو متحدہ عرب امارات کے شہری اور ایک ایک لبنان اور مصرکا شہری شامل تھااور پاکستان کا کوئی شہری شامل نہیں تھا۔ ہم، پاکستانی یہ جاننے کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ نائن الیون میں پاکستان کہاں ملوث ہے اور وہ ممالک جن کے شہری ملوث تھے وہ اب بھی امریکا کے دوست ہیں اور یہاںتک کہ اردن نے داعش کو تربیت دینے کے لئے پلیٹ فارم بھی مہیا کیا۔ پاکستان پوری دنیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے امریکا کی مدد کرتا رہا ہے لیکن امریکا نے پاکستان کی کوششوں اور سپورٹ کو تسلیم کرنے کی بجائے گزشتہ 10برس سے دہشت گردی سے متعلق پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا بار بار مطالبہ کرنے کے سنڈروم میں داخل ہوگیا ہے۔ امریکا غالبا ًیہ بات بھول گیا ہے کہ اس نے ہمیشہ خطے میں اپنے دشمنوں کے خلا ف آر پی جی فائر کرنے کے لئے پاکستان کا کندھا استعمال کیا ہے اور اب بھی ہم سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے سوویت جنگ میں ان کی مدد کی اور اب ’’ہم‘‘ طالبان کے حملوں اور دہشت گردی کے لیبل دونوں کا سامنا کر رہے ہیں جس کی وجہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کی مدد کرنا ہے۔ غالبا ًاب وقت آگیا ہے کہ امریکی انتظامیہ سے کہا جائے کہ وہ کم از کم پاکستان کی حد تک ’’ڈومور‘‘ کے سنڈروم سے باہر نکل آئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا سے کہا جائے کہ وہ افغانستان سے پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد آپریشنز روکنے کے لئے ’’ڈومور‘‘ کرے۔ افغان انتظامیہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کو یقینی بنائے۔ افغانستان کی انتظامیہ سے کہا جائے کہ وہ اپنی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اور اہلکاروں کے ذریعے تخریب کاری کی سرگرمیاں جاری رکھنے سے باز رکھے، بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستان مخالف عناصر کو فنڈنگ، تربیت کی فراہمی اور لاجسٹک سپورٹ دینے کے لئے اپنی اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرنا بند کرے۔ میں صدر بش سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات کا حوالہ دینا چاہوں گا جہاں میں نے پاکستان کے وزیرداخلہ کی حیثیت سے شرکت کی تھی جہاں میں نے صدر بش کو پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہوئے سنا کہ وہ ’’ڈومور‘‘ کرے اور صدر بش کو میرا فوری جواب یہ تھاکہ اب وقت ہے کہ امریکا ’’ڈو مور‘‘ کرے کیونکہ پاکستان بہت کچھ کرچکا ہے جبکہ امریکا ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ دیگر کے علاوہ مس رائس اور اس وقت کے سیکرٹری آف اسٹیٹ بھی موجود تھے ، لہذا یہ جنرک لفظ ’’ڈومور‘‘ پاکستان کے خلاف امریکا کا مستقل سلوگن بن چکا ہے۔ پاکستان حکومت کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہونے والے 90 فیصد سے زائد دہشت گرد حملے کا سراغ افغان مہاجرین کیمپوں سے ملتا ہےا ور ان حملوں میں ملوث کئی افغان شہری گرفتار کیے گئے ہیں۔ افغان عسکریت پسند بعض اوقات پناہ کے لئے پاکستان کے سرحدی علاقے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ کٹی پھٹی سرحد کی وجہ سے مقامی انتظامیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے لئے ملک میں افغان عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دسمبر 2014 میں پشاور کے اسکول میں قتل عام میں جو پاکستان کی تاریخ کا مہلک ترین دہشت گرد واقعہ تھا، میں دو افغان عسکریت پسند ملوث تھے۔ صدر ٹرمپ کیا آپ انکار کرسکتے ہیںکہ ہم اب بھی اس جنگ کے متاثرہ نہیں ہیں۔ سوائے طالبان کے اقتدار کے تحت تاریخی طور پر بھارت کے افغانستان کے ساتھ دہائیوں تک اچھے تعلقات رہے ہیںاور طالبان کے بعد حامد کرزئی کے بطور صدر منتخب ہونے کے بعد بھارت نے ایک مرتبہ پھر ان تعلقات کی تجدید کی جس کا مشترکہ مقصد پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر رکھنا تھا۔ بھارت نے پاک افغان سرحد پر سفارت کاری کی آڑ میں اپنا دہشت گرد نیٹ ورک قائم کیاجو اس وقت سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا اڈا بناہوا ہے جس کی پشت پناہی را اور این ایس ڈی کرتے ہیں۔ یہ کوئی اور نہیں بلکہ صدر کرزئی تھے جنہوں نے میرے سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ بھارت کے تربیتی کیمپ موجود ہیں لیکن انہیں ختم کرنے میں انہوں نے امریکا سے کلیئرنس کے حصول تک اپنی مجبوری کا اظہار کیا۔ اب یہ امریکا ہے جسے ’’ڈومور‘‘ کی ضرورت ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کو ان کی سرگرمیوں سے روکے، انہیں مسلح کرنے، رقم فراہم کرنے اور دہشت گردوں کی حمایت کرنے سے باز رہے۔ آخر میں جناب صدر آپ اور آپ کے پیش رو پاکستان پر ’’ڈو مور‘‘ کےلئے دباؤ ڈالتے رہے ہیں جس کی بنیاد ہمارے مخالفین کی جانب سے فراہم کردہ ناقص انٹیلی جنس ہوتی ہے۔ حقانی نیٹ ورک پاکستان کا نہیں مغرب کا اثاثہ تھا اور ہے۔ پاک فوج کی جانب سے ضرب عضب کے آغاز کے ساتھ ہی افغانستان کو انتباہ کیا گیا تھا کہ دہشت گرد ممکنہ طور پر افغانستان کی سرحد پار کر سکتے ہیں اور درخواست کی گئی تھی کہ افغانستان اپنی سرحد بند کرے تاکہ انہیں یہ موقع نہ مل سکے لیکن افغانستان نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ اگر افغانستان نے سرحد بند کردی ہوتی تو دہشت گردوں کی اکثریت کو ختم کر دیا جاتا جس سے خطے میں مزید امن ہوتا۔ کون ڈومور کرنا چاہتا تھا، پاکستان یا افغانستان یا امریکا؟ میں پوری اتھارٹی کےساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے براہ راست احکامات کے تحت فاٹا میں میری براہ راست نگرانی میں حقانی اور مینگل کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ وزیراعظم مودی افغان صدر کے بعد پاکستان مخالف بلوچ رہنماؤں سے ملاقات کرتے ہیں، جسے ان شرپسندوں کی کھلی حمایت کے طور پر لیا جاتا ہے اور اب حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ امریکی کانگریس مین ڈانا رورابیکر نے پاکستان مخالف اشتہاری مجرم جو برطانیہ میں رہتا ہے، سے ملاقات کی۔ سوال یہ ہے کہ اصل میں کون اصل میں دہشت گردوں، شرپسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ جناب صدر پاکستان مخالف عالمی سازشوں کو روکنے کے لیےآپ کو ڈومور کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے ہی عالمی امن کے لئے بہت کچھ کر چکے ہیں اور افغانستان سے موت کی سپلائی کے بدلے دو ملین پناہ گزینوں کو کھلاتے پلاتے رہے ہیں۔ یو این او ڈی سی کی ایک رپورٹ جو برطانوی نشریاتی ادارے نے شائع کی ہے، اس کے مطابق 23 اکتوبر 2016 کو افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 2015 میں 43 فیصد اضافہ ہوا اور افیون کے پودے کاشت کرنے کے لئے 10 فیصد رقبے کا اضافہ ہوا جو دو لاکھ ایک ہزار ہیکٹر ہے۔ افغانستان میں افیون کے پودے کی کاشت میں اضافہ اور ہیروئن کی پاکستان اسمگلنگ کے تباہ کن اثرات ہوئے جو منشیات کے عادی افراد کی یومیہ اموات کی صورت میں ہیں جو اندازہ 7 سو اموات یومیہ ہیں، یہ دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت میں ہیروئن اور ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ دہشت گردوں کے لئے مالی امداد ہے۔ جناب صدر آپ کو افغانستان سے، جو فوجی اور انتظامی لحاظ سے آپ کی فوج کے کنٹرول میں ہے، منشیات کی فراہمی اور افیون کی پیداوار کو روکنے کے لئے مزید زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں ہے، مغرب کو منشیات کی اس برآمد سے دنیا کو بہت زیادہ مصائب کا سامنا ہے اور جناب صدر کیا آپ امریکی فوج کی بالکل ناک کے نتیچے سے گزرنے والی منشیات سے دنیا کو موت بانٹنے کے اس عمل کو جاری رکھنا پسند کرتے رہیں گے۔ جناب صدر افغانستان سے منشیات کی پیداوار کو روکنے پر غور کریں تو پھر 90 فیصد دہشت گردی خود بخود ختم ہوجائے گی کیونکہ منشیات کا منافع جو دہشت گردوں کو جاتا ہے وہ فورا ہی ختم ہوجائےگا۔ یہ جناب صدر آپ کی جانب سے حقیقی معنوں میں ڈومور ہوگا جو بالخصوص اس خطے اور بالعموم دنیا کے لئے ایک عظیم تحفہ ہوگا۔ جناب صدر آپ اپنی انٹیلی جنس بریفنگ کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیں جس سے آپ کا ذہن تبدیل ہوجائے گا۔ لہذا جناب صدر ، مجھے امید ہے کہ ہوسکتا ہے کہ میرے پیش کردہ مندرجہ بالا حقائق سے آپ قائل ہوجائیں کہ پاکستان دہشت گردی کا متاثرہ ہے اس کا مرتکب نہیں اور مجھے امید ہے کہ معصوم بچوں کی چیخیں آپ کو قائل کردیں گی کہ ہم دہشت گردی سے متاثر ہیں اس کے حامی نہیں ہیں۔ مجھے آپ یا آپ کے ٹاپ میڈیا سے مباحثہ کرنے میں بہت خوشی ہوگی اور میں ثابت کروں گا کہ پاکستان دہشت گردوں کا دشمن اور انسانیت کا دوست ہے۔
راقم سابق وزیرداخلہ اور تھنک ٹینک ’’گلوبل آئی ‘‘ کے چیئرمین ہیں

تازہ ترین