• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز رشید نے ایک بیان میں موجودہ بحران کا نچوڑ بیان کر دیا ہے کہ موجودہ بحران کی ذمہ دار مشرف کی بدروح ہے۔ ایک عرصے سے جمہوریت پسند حلقے خدشات کا شکار تھے کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہر کسی کو ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ اگلے انتخابات سے پہلے کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو گی۔ ہمارے دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی نظام حکومت میں سینیٹ کے انتخابات بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے قومی اسمبلی کے انتخابات کیونکہ کسی بھی قانون سازی یا آئینی و قانونی ترمیم کیلئے دونوں ایوانوں سے پاس ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ جو بھی گڑ بڑ ہونی ہے وہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے کی جائے گی۔ خدشے درست ثابت ہوئے اور ملک کو ایک بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا گیا ہے۔
سیاسی طور پر جنرل مشرف کو گزرے کئی سال بیت گئے لیکن اگر حالیہ واقعات کی کڑی سے کڑی ملائی جائے تو ایسا محسوس ہو گا کہ ہم 2017نہیں بلکہ 2007میں سانس لے رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی ری انجینئرنگ کا ایک ماسٹر پلان ہے جو عمل درآمد کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ پہلی کڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل انتشار کی فضا ہے۔ سیاسی جماعتوں کےمابین تعلقات میں تلخی اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ انکے لئے ’’جمہوریت بچائو‘‘ کے یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہونا نا ممکن ہو چکا ہے۔ تینوں قومی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دست و گریباں ہیں۔ تحریک انصاف کی بات پہلے کرتے ہیں۔ پچھلے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان رولز آف گیم کی پابندی کے خاموش سمجھوتے کے پیش نظر ایک’’روندو‘‘ قسم کے تیسرے کھلاڑی کی ضرورت محسوس کی گئی جو رولز آف گیم کو ’’مک مکا‘‘کا نام دے۔ ق لیگ عوام کی نظر میں بری طرح پِٹ چکی تھی سو ق لیگ کو ایک نئے برانڈ کی ضرورت تھی جو تحریک انصاف کی صورت بڑی محنت اور سرمایہ کاری کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔ لیکن ’’مہرے‘‘ کا کردار جو تحریک انصاف کے عروج کی وجہ بنا وہی چند سالوں کے اندر اندر اسکے زوال کا سبب بن چکا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں اسکی قلعی بہت جلد عوام کے سامنے کھل گئی۔ سو اگلے انتخابات کیلئے تحریک انصاف کی حیثیت ق لیگ جیسی ہونے لگی تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اختلافات پر دوبارہ توجہ مبذول ہوئی۔ پہلے پی پی کو عتاب کا نشانہ بنا کر قائل کیا گیا کہ مسلم لیگ ن اسکی مدد کو نہیں آئی۔ اب مسلم لیگ ن کو عتاب کا نشانہ بنا کر پیپلز پارٹی پر دستِ شفقت رکھا گیا ہے اگر وہ لائن پر آ جائے تو اگلے انتخابات کے لئے پورے ملک میں جیسے چاہے، آزادانہ کمپین چلا سکے گی۔ ابھی تک تو یہ حربہ کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ اس پلان کی دوسری کڑی مسلم لیگ ن جس کے اگلے انتخابات جیتنے کے امکانات واضح ہیں، کو اندر سے تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں ایک بڑی کوشش نظر آ رہی ہے۔ شریف خاندان کے اندر دراڑ، چوہدری نثار کے اختلافات، پچاس ایم این ایز پر مشتمل فارورڈ بلاک جیسی خبریں نہ صرف پھیلائی جا رہی ہیں بلکہ انہیں خوب ہوا دی جا رہی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس ضمن میں کام زور و شور سے جاری ہے اگرچہ ابھی تک کوئی زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ تیسری کڑی اس سازش کیخلاف جمہوریت کے متوقع ردِ عمل کو کنٹرول کرنے سے متعلق ہے۔ جب جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے جنرل ضیا کی آئین میں زبردستی داخل کی گئی ترامیم کے بظاہر آئینی اور قانونی استعمال کے ردِعمل کے طور پر مسلم لیگ ن کی طرف سے ان ترامیم کو ختم کرنے کی بات سامنے آئی ہے تو نہ صرف پیپلز پارٹی کو اس عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ گریبان پکڑنے کی دھمکیاں سامنے آرہی ہیں۔ جنرل ضیا کی ان ترامیم کو محفوظ رکھنے کیلئے وہ جماعتیںجنکی پارلیمان میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، کو اسٹریٹ ایجی ٹیشن کیلئے متحرک کرنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ چوتھی کڑی پہلی تین کڑیوں سے اس وقت ملتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جب ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ نہ صرف بار اور بنچ کے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں بلکہ وکلا کے اندر بھی ایک تقسیم واضح ہو رہی ہے۔ مشرف کو وکلا تحریک کے ذریعے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا تو اسکی بدروح وکلا کو سبق سکھانے کیلئے کوشاں رہی ہے۔ایک عرصے سے وکلا کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی تھی، اب ایک قدم بڑھ کر وکلا کو تقسیم کرنے اور لڑانے کی کوشش نظر آ رہی ہے۔ سو، ملتان ہائیکورٹ میں ہونے والا ایک معمولی سا واقعہ جو بنچ اور بار کی ایک دو میٹنگز میں حل ہو سکتا تھا بنچ اور بار کے درمیان ایک ملک گیر تصادم کی طرف بڑھتا نظرآ رہا ہے۔ ایک طرف وکلا رہنمائوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف وکلا تنظیمیں ہڑتالوں کی کال دے رہی ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق نہ صرف وکلا رہنمائوں کی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ اس تصادم میں رینجرز کی تعیناتی سے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ پانچویں کڑی میڈیا کی تقسیم اور آزادی صحافت پرقدغنوں سے متعلق ہے۔ چھٹی کڑی آزادی رائے پر کریک ڈائون سے متعلق ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے عوام کو اپنی رائے کے اظہار کیلئے ایک موثر فورم سوشل میڈیا کی شکل میں میسر آیا لیکن کچھ عرصے سے نہ صرف ایسے قابلِ اعتراض قوانین بنائے گئے جس سے سوشل میڈیا کو ہراساں کرنے کا تاثر ملا بلکہ ایسے ماورائے آئین و قانون اقدامات بھی سامنے آئے جن سے یہ پیغام دیا گیا کہ عوام سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہ کریں۔ اور ساتویں کڑی کا تعلق حال سے زیادہ ماضی سے ہے۔ وکلا تنظیموں کی طرح طلبا تنظیمیں اور مزدور یونینز اپنی فطرت میں آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق کی آواز ہوتی ہیں، اسلئے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی صورت طلبا تنظیمیں بحال نہ ہوں۔ اسی طرح مزدور یونینز کو بھی ایک منصوبے کے تحت کمزور رکھا گیا ہے۔ سو موجودہ پلان کے مطابق طلبا تنظیموں اور مزدور یونینز کے بارے میں ’اسٹیٹس کو‘کو یقینی بنائے رکھنا شامل ہے۔
اس طرح جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والے ایک ایک ادارے اور محاذ کوبیک وقت غیر فعال کرنے کی کوشش نظر آ رہی ہے ۔ شایدمقصد یہ ہے کہ ایسا ساز گار ماحول پیدا کیا جا سکے جس میں اس انداز سے سیاسی ری اسٹرکچرنگ کی جائے کہ نہ صرف سینیٹ کے اگلے انتخابات میں مرضی کے نتائج نکل سکیں بلکہ قومی اسمبلی کیلئے اگلے عام انتخابات کے نتائج پر بھی گرفت مضبوط رہے۔

تازہ ترین