• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس مرتبہ ہم گھومتے گھومتے ڈی ایچ اے فیز نمبر6اور7کی طرف چلے گئے۔ یہ علاقہ آج سے چالیس ،پچاس برس قبل مکمل طور پر دیہاتی علاقہ تھا اور اب بھی ڈی ایچ کے اردگرد کم از کم دو سو دیہات ہیںجو آہستہ آہستہ شہری آبادی میں تبدیل ہورہے ہیں۔ ان دونوں فیزز میں جس تیزی سے ترقی اور ترقیاتی کام ہورہے ہیں انہیں دیکھ کر خوشی اور حیرت ہوئی۔ ایک طرف ملک میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ہر کوئی اپنی جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے ۔ وفاقی سطح پر ہر وزیر اور ایم این اے ملکی مسائل اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر پاناما کیس، بڑے میاں صاحب کی نااہلی اور ن لیگ کی اندرونی سیاست پر بیان بازی کررہے ہیں۔ یہ کام اکژ سیاستدان کر رہے ہیں جبکہ کے پی کے میں ڈینگی سے بےخبر حکمران اپنے چکروں میں لگے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی شدت سے پھیلنے والی اس بیماری کےلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کے پی کے میں اب تک ایک ہزار افراد اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جبکہ بارہ سے زائد مرچکے ہیں۔ پنجاب کے وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے کے پی کے کو مدد کی پیشکش کی ہے اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنی ٹیمیں بھیج دی ہیں۔ شروع میں سیاسی انا کی وجہ سے عمران خان کی حکومت نے انکار کردیا تھا۔
آج کل کوئی ٹی وی چینل دیکھ لیں، اخبار اٹھا کر دیکھیں سیاست، سیاست اور صرف سیاست ہورہی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے جن غریب عوام کے ووٹوں سے جیت کر یہ لوگ آج اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ان کے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ بڑھتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف یہی سیاستداں عوام کے مسائل سے آنکھیں بند کئے ایسے بیانات دیتے ہیں کہ جیسے ان سے زیادہ مخلص و ایماندار ملک میں کوئی اور نہیں، اگر یہ سارے سیاستدان مخلص اور ایماندار ہیں تو پھر بدعنوان کون ہے؟ کیا بے چارے جو دو وقت کی روٹی کو ترستے یہ عوام غلط ہیں اور مخلص نہیں؟ بات کہاں سے کہاں چلی گئی ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے فیز6اور7کو دیکھا تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ پچھلے چالیس برس میں ڈی ایچ اے لاہور میں اتنا کام نہیں ہوا جتنا پچھلے تین چار برسوں میں ہوا ہے اور اس سارے کام کا کریڈٹ ڈی ایچ کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئر ظفر بلال یاسین کو جاتا ہے۔ اس وقت لاہور کی کوئی آبادی اس علاقے کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ ایل ڈی اے کے پاس جتنا اسٹاف، گاڑیاں اور ٹرک ہیں اس کے آدھے سے بھی بہت کم ڈی ایچ اے کے پاس ہیں، مگر بات وہی ہے کہ اگرنیت کے ساتھ جذبہ سچا ہو تو یہ کام کیا جاسکتاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس ادارے میں کوئی کام بغیر قواعد و ضوابط کے نہیں ہوتا۔ پورے آفس میں آپ لاکھ کوشش کرلیں کوئی ملازم آپ کو غلط کام کرتے ہوئے یا رشوت لیتے ہوئے دکھائی نہیں دے گا جبکہ ایل ڈی اے میں آئے دن لوگوں کی فائلیں گم ہوجاتی ہیں۔ ون ونڈو آپریشن ناکام ہوچکا ایک ایک کام کےلئے بیسوں مرتبہ آنا پڑتا ہے۔ بریگیڈئر ظفر بلال یاسین اور ان کی ٹیم نے اتنا سادہ سسٹم بنایا ہوا ہے کہ آپ نقشہ جمع کرائیں اور ہفتے دس دن بعد آپ کے گھر پر فائل آجائے گی کہ آپ کے نقشے میں فلاں کمی ہے اسے دور کریں یا اپنے آرکیٹیکٹ کو ہمراہ لائیں اسے سمجھادیا جائے گا کہ نقشے کے نقائص کیسے دور کرنے ہیں؟ نہ کوئی رشوت نہ سفارش، اگر کپتان اچھا ہو تو ٹیم بھی دلجمی سے کام کرتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف جو ترکی اور چین سے ماہرین بلا کر اسپتالوں کا نظام چلانے کی کوشش کررہے ہیں اگر وہ آرمی کے ڈاکٹرز اور ماہرین تعمیرات کو ڈی ایچ اے کے لوگوں کے ساتھ شامل کرکے اسپتال تعمیر کریںتو انہیں باہر سے کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ڈی ایچ اے لاہور کا کسی ڈی ایچ اے سے مقابلہ نہیں۔پھروہی بات آتی ہے کہ اگر قیادت نیک نیت ہو اور جذبہ سچا ہو تو ہر کام ہوسکتا ہے۔ پچھلے ہفتے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر رتھ فائو نے جس طرح جوانی میں پاکستان آکر جذام(کوڑھ) کے خاتمے کے لئے اپنی زندگی وقف کی وہ دنیا کی تاریخ میں سنہری باب ہے ا ور جب تک دنیا قائم رہے گی ڈاکٹر رتھ فائو کا ذکر ہوتا رہے گا۔ پچاس برس تک دکھی انسانیت کی خدمت کرتی رہیں، نیلسن منڈیلا 25سال اپنے عوام کے حقوق کے لئے قید میں رہا۔ بڑے میاں صاحب آپ نے ہمیشہ کہا کہ ہم نے عوام کی خدمت کی ہے اگر برا نہ مانیں تو خدمت ڈاکٹر رتھ فائو، عبدالستار ایدھی، مدرٹریسا اور مسز ای ایم شیخ اور نیلسن منڈیلا نے کی ہے۔
مسز انور معیز شیخ(Juddy) ایک جرمن خاتون تھیں جو1940کے لگ بھگ جرمنی سے پاکستان آئی تھیں مسلمان ہوگئی تھیں اور اس وقت کےجنرل منیجر ریلوے پاکستان سے شادی کی تھی۔ انہوں نے چڑیا گھر کے جانوروں کی بہتری اور ان کی صحت کے حوالے سے انتھک کام کیا۔ وہ روزانہ چڑیا گھر آتیں جانوروں کو اناج بھی دیتیں اور ان کے ساتھ گھنٹوں وقت گزارتیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کی خدمات کے بارے میں آج تک کوئی نہیں جانتا مگر وہ ایک جذبے اور لگن کے ساتھ کام کرتی رہیں تھیں۔مسز ای ایم شیخ کو ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا ہےیہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے لاہو ر میں محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات قائم کیا۔ بعد میں یہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ یہ خاتون یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے عملے کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر ان بیمار ا ور مریل گھوڑوں کو پکڑا کرتی تھیں جن کو ان کے کوچوان بہت مارتے تھے۔ زخمی گھوڑوں کو تانگے اور ریڑھے میں باندھ کر چلاتے تھے اور ان کو کھانے کے لئے نہیں دیتے تھے۔ان کے ساتھ کچھ افراد کا عملہ ہوتا تھا جونہی کوئی ایسا تانگہ /ریڑھا نظر آتا جس کا گھوڑا جسمانی طور پر کمزور یا زخمی ہوتا یہ خاتون اس گھوڑے کو موقع پر اٹھا کر ایمبولینس میں گھوڑا اسپتال لے آتی تھیں، تب ہی سے کالج اب ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز (UVAS)کا نام آج تک گھوڑا اسپتال ہے۔جہاں پر اس بیمار گھوڑے کا علاج کیا جاتا اس کو صحتمند کیا جاتا جب اس کا مالک اس کو لینے آتا تو اس سے جرمانہ لیا جاتا۔
یہ خاتون برسہابرس تک خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی اور جس سڑک پر کھڑی ہوتی تھی وہاں سے ٹانگے اور ریڑھے والے بھاگ جاتے تھے۔اسی طرح ڈاکٹر رتھ فائو نے جس طرح کوڑھ زدہ مریضوں کے ساتھ کام کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔پرانے وقتوں میں جذام کے مریض کو گائوں سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور ان سے انتہائی توہین آمیزسلوک کیا جاتا تھا۔وہ ایک بھی دن ان سے بددل نہ ہوئی۔ مانا کہ ا نہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا مگر کاش! اس کی زندگی میں اس کی خدمات کو سراہا جاتا تاکہ لوگ اس کے بارے میں جان سکتے لیکن اب اس کی یاد میں اس کے کام کو جاری بھی رکھنا چاہئے۔
بات ڈی ایچ اے سے شروع ہوئی تھی کہ آنے والے برسوں میں یہ شہریوں کے لئے ایک تحفہ سے کم نہیں ہوگا۔ آج یہ بستی دنیا کے کسی بھی ملک کی جدید بستی کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
بڑے میاں صاحب آپ بھی ایسا کچھ کرگزریں کہ لوگ آپ کو بھی یاد کریں۔ اس سیاست نے آپ کو نیک نامی نہیں دی تو اب سماجی کام کرکے دیکھ لیں یقیناً آپ کو بہت نیک نامی ملے گی۔

تازہ ترین