• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک فیصلہ آچکا ہے اور اگلا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے کہ آپ کا آئندہ کی سیاست اور حکومت میں کوئی کردار ہوگا نا آپ فعال ہوسکیں گے، اب اس پر عمل ہوگا کیونکہ یہی ’’طاقتوروں‘‘ کا فیصلہ ہے۔ گو آپ اس چومکھی لڑائی میں چاروں شانے چت ہوچکے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ اچھا پہلوان وہی ہوتا ہے جو خود اکھاڑے میں ہار جیت کے طویل تجربے کے بعد اپنی باقیات کو وہ گر سکھا جائے جو ان کی آفاقی اور لافانی طاقت و کامیابی کا سبب بن جائیں اور فتح ان کا مقدر بن سکے، جی ہاں یہ مشکل وقت پہلی مرتبہ نہیں بلکہ آپ پر بار بار آچکا ہے لیکن آپ ہر مرتبہ کبھی دعائوں کے صدقے، کبھی قسمت کے دھنی بن کر اور کبھی کسی کی ’’آنکھ کا تارا‘‘ بن کر کامیاب و کامران بن کر نکلتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ آپ کے چند ’’قریبی‘‘ کی مدد سے آپ کو وہ مات دی گئی کہ اب آپ ’’ریٹائرڈ ہرٹ‘‘ ہونے کے بعد ابھی دوبارہ اننگز کھیلنے نہیں آسکیں گےجبکہ آپ کو ’’نیب زدہ‘‘ کرنے کا کٹھن عمل شروع ہوچکا ہے تاکہ آپ دوبارہ اقتدار کےمیدان میں اترنے کے قابل نہ رہیں؟ سب کچھ کھونے کے بعد اب اس وقت آپ کے پاس مزید کچھ کھونے کے لئے نہیں لیکن کچھ پانے کے لئے ضرور ہے.... وہ ہے ’’قائد جمہوریت‘‘ کا ٹائٹل.....! کیا آپ یہ حاصل کرنا چاہیں گے؟ لیکن اپنے اندر ’’انتقام اور بدلے‘‘ کی بھڑکتی آگ پرقابو پاسکیں گے؟ کیا آپ ماضی کی تلخ یادوں اور تجربات کو نئی جمہوری روشن صبح میں بدلنے کا حوصلہ کریں گے؟ کیا آپ پاکستان کو بچائیں گے؟ شاید میرا جواب ہاں میں ہو، لیکن آپ کی اندر کی صدائیں آپ کے اقدامات کی توثیق کر رہی ہیں کہ نواز شریف اب بھی نہیں بدلا، وہ جن کے مشورے اور حصار میں ہے وہ چاہتے ہیں کہ اب کی بار بچنے نہ پائے! خیرخواہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی سنیے جناب، اب مزید کچھ کھونے کو نہیں ہے، کچھ پانے کی سعی کریں.....!
حکمران ن لیگ کی جانب سے دو کے مقابلے میں تین ججوں کے مزید تحقیقات کرانے کے سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کو بڑی کامیابی قرار دے کر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور قیادت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، یقیناً انہیں اس وقت اس کا ادراک ہوا نہیں یا ہونے کے باوجود اس کو نظرانداز کرکے اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں مٹھائی تقسیم کی گئی، تاہم 28 جولائی کی دوپہر کے فیصلے نے نواز شریف کی سیاسی دنیا سیاہ اندھیری رات میں تبدیل کردی، یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہر کسی سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ ’’کیوں نکالا؟‘‘ گو کسی حد تک ایک واضح جواب چوہدری نثار، شہباز شریف اور راجا ظفرالحق سمیت سینئر قائدین کی جانب سے بارہا آپ کو دیا گیا اور اب بھی دیا جارہا ہے، یہ بھی باور کرایا گیا کہ جمہوریت کا نومولود بچہ گود میں لینے کے بعد نہ فوراً چل سکتا نہ دوڑ سکتا ہے بلکہ اس کی اچھی پرورش اور دیکھ بھال لازم ہے، جسم توانا اور روح کو ہر قسم کی ’’پراگندگی‘‘ سے پاک کرنا ضروری ہے، اچھے اسلوب سکھلا کر اور مین آف کریکٹر بنانا اہم ہے تبھی یہ ’’حوادث‘‘ سے ٹکرانے کی صلاحیت اور مضبوط رہ کر کامیابی حاصل کرپائے گا، لیکن آپ عادتاً یا مجبوراً ہر مرتبہ جمہور کے بےچارے نومولود کو ایک ’’اژدھا مثل دھوش‘‘ سے ٹکراتے رہے، ہر بار چھوٹا بھائی اور قریبی ساتھی منت ترلا کرکے نومولود کو عفریت سےبچاتے رہے، پھر بار بار کی لغزشوں نے معافی کا دروازہ بند کردیا اور آپ نے خود اور ملک کو ایسے دوراہے پر لاکر کھڑا کیا ہے جہاں اس نظام کو اب لپیٹنے کی تیاریاں ہورہی ہیں؟ کہیں دو سے تین سال کی ٹیکنوکریٹ حکومت بنانے کا ڈسکشن چل رہا ہے تو کہیں بنگلہ دیش ماڈل کی نئی قسم ایجاد کرنے پر غور ہورہا ہے، کہیں ’’مشرف‘‘ کے سابقہ ساتھی اور آپ کے طاقتور وزیر کچھ نئی صف بندیوں میں مصروف نظر آتے ہیں تو کچھ عناصر عالمی سطح پر ایسی صورت حال کی عکس بندی میں سرگرداں کہ مسائل کا واحد حل ’’مارشل لا‘‘ ہے! آپ کے بعض خیرخواہ کہتے ہیں کہ حضور سارا قصور آپ کا ہی ہے کیونکہ آپ کو زعم تھا کہ آپ بہت طاقتور بن چکے ہیں، بقول چوہدری نثار بعض ناعاقبت اندیش آپ کو ہروقت بھڑ جانے کا مشورہ دیتے رہے جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل بھی کرتے رہے، یہی نہیں گزشتہ سال نومبر میں غیرضروری طور پر کہا گیا کہ طوفان ٹل گیا، پھر2023 اور 2028 تک حکومتوں کے خواب بھی بن لئے گئے، پارلیمنٹ کی توقیر کی بجائے غیرضروری اور لاحاصل غیرملکی دوروں کو ترجیح دی گئی، حریفوں کےبقول جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کچھ کرنا تھا تو پارلیمنٹ میں بیٹھی جمہوری قوتوں کو اعتماد میں لےکر کرتے، پالیسی اور فیصلہ سازی میں مکالمے کی بجائے سولو فلائٹ کو ترجیح کیوں بنایا، صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے محض وفاق کو مضبوط کرنے کو ترجیح بنایا، ناقدین کی رائے میں جب سب کچھ آپ نے خود کیا تو آج سیاسی حریفوں کو مدد کے لئے کیوں پکار رہےہیں، آج آپ کو جمہوری نظام بچانے کی فکر کیوں کھائے جارہی ہے؟ا ٓج آپ کو ملک میں معاشی و اقتصادی بحران کیوں نظر آرہا ہے، حقیقت یہ ہےکہ آپ نہ سہی حکومت تو آپ کی ہی ہے پھر یہ شور کیوں؟
بعض تجزیہ کاروں کی نظر میں جو ہونا تھا وہ ہوچکا اور اب جو ہونے جارہا ہے اس کی بھی آپ کو پروا ہے نہ آپ نے اس کی تیاری کی ہے؟ ہاں بعض کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح آپ کوئی خفیہ ڈیل یا چال نہ چلنے جارہے ہوں؟ اب تو آپ کو بند کمرے میں مشورے دینے والے دیرینہ ساتھی چوہدری نثار نے بھی ہانڈی بیچ چوراہے پھوڑ دی ہے، بقول ان کے پارٹی میں اختلافات ہیں، پارٹی اور قیادت دونوں مشکل میں ہیں لیکن وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اس لئے خود کو علیحدہ کرلیا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے قائد کے ساتھ اسی محبت اور مدد کا ثبوت دیتے جو گزشتہ چار برسوں سے کرنے کے آپ دعویدار رہےہیں، کیا اچھا ہوتا کہ ایک مرتبہ پھر ’’مصالحت‘‘ کرا دیتے؟ لیکن لگتا ہے کہ اس مرتبہ گیم بالا بالا ہوئی، جس کا آپ کو بھی کچھ اندازہ تو شاید ہوا ہو تاہم مکمل ادراک نہیں تھا، اسی لئے کھل کر نہیں دبے لفظوں سے سمجھانے بجھانے کو ترجیح دی، سوشل میڈیا کے مارے سادہ لوح عوام پوچھتے ہیں اب کیا ہوگا؟ تو عرض ہےکہ اب مزید کیا ہونا ہے، جس پارٹی کی حالت یہ ہو کہ ان کا قائد مصیبت میں گرفتار ہو، اس کےبازو ’’کسی اور‘‘ کی طاقت بننے کے لئے بے تاب ہوں، زیادہ سے زیادہ طاقت اور اقتدار کے لئے بڑے ہدف کے شکار میں ہوں، محض ناراض اور غائب اس بات پر ہوجائیں کہ انہیں چھوٹا نہیں بڑا وزیر بننا ہے، ایسے مخلص ساتھیوں پر میاں صاحب کو بجا طور پر فخر کرنا چاہئے، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جو ہر دور میں اقتدار کے ساتھ رہے اور رہیں گے، دوسری طرف حالت یہ ہے کہ آئینی و قانونی مشوروں کے باوجود راستے بھر آپ جس عدلیہ کو تنقید و تحقیر کا نشانہ بناتے رہے اب اسی کے سامنے رعایت لینے کی درخواست دے چکے ہیں بہرطور اب پھر فیصلہ عدالت ہی نے کرنا ہے۔ نیب برق رفتاری سےریفرنسز کی تیاری میں مصروف بھلے سے آپ پیش ہوں یا اس پراسیس کو نہ مانیں کیونکہ اس نے تو طے شدہ پلان کےمطابق آپ کو ’’اندر‘‘ کرنے کا کام بروقت مکمل کرنا ہے۔ بعض تنقیدی کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی مسلم لیگ نظریاتی سے زیادہ کنگز پارٹی کے طور پر شناخت بنانے میں کامیاب ہوئی، زیادہ دور نہ جائیں، دیکھیں 1999 کے بعد ڈکٹیٹر کی کابینہ کےوزرا کل کس کے وزیر تھے اور آج کس کے وزیر ہیں بس یہی کمٹمنٹ ہے اور یہی وفاداری کا پیمانہ۔ پس ن لیگیوں کی اپنی کہی ہوئی بات، ’’ابھی توپارٹی شروع ہوئی‘‘، موجودہ حالات پر صادق آرہی ہے اور اب وقت اس کا امین بنے گا۔

تازہ ترین