• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے میں انصاف کی فراہمی کیلئے بنچ اور بار لازم و ملزوم ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے بنچ اور بار کے درمیان بار بار جھگڑے سر اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملتان بنچ کے ججز اور بار صدر کے مابین دورانِ سماعت تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ مقدمے بازی تک پہنچ گیا۔ پیر کے روز لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے معاملے کے کیس کی سماعت کی۔ ملتان بار کے صدر اور سیکرٹری کے لائسنس معطل کر دئیے اور دونوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے خلاف وکلاء نے لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں اور مال روڈ پر احتجاج کیا۔ پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے وکلاء کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ لاہور میں اس کارروائی اور ملتان میں رہنماؤں کی گرفتاری پر وکلاء نے شہر شہر احتجاج کیا اور منگل کے روز ملک گیر جزوی ہڑتال بھی کی۔ہڑتال کے باعث سائلین کے کیسز کی سماعت ملتوی کرنا پڑی ۔ججز کی کم تعداد کی وجہ سے پہلے ہی تاخیر کا شکار کیسز مزید التوا میں چلے گئے۔ سینیٹر اعتزاز احسن، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، معروف قانون دان ایس ایم ظفر اور بیرسٹر ظفر علی نے بار اور بنچ کے مابین تصادم کو انصاف کے نظام کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بنچ اور بار مل کر کسی بھی ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ ملک کا معزز ترین ادارہ ہے جس کے ذمے انصاف کی فراہمی کا فریضہ ہے۔ دوسری طرف وکلاء ہیں جو انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں کی مدد کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے درمیان کشاکش خاص طور پر وکلاء میں انتہا پسندانہ رجحانات قوم کے مفاد میں نہیں ہیں۔ججوں اور وکلاء میں ایسی صورتحال کے ازالے کے لئے قانونی راستہ موجود ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہیں اس فورم سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ عوام کا اداروں پر اعتماد مجروح نہ ہو اور ملک میں انصاف کا بول بالا رہے۔

تازہ ترین