• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہوسکتا ہے کہ میاں محمد نوازشریف کو خوش گمانی ہوکہ وہ ایک منفرد ہیرے کی طرف سیاسی منظر نامے پر بدستورجگمگا رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ ایک ایسا آئینہ ہیںجس میں وہ اُن ناپسندیدہ حقائق کا عکس دیکھ سکتے ہیں جنہیں کل تک تسلیم کرنا اُن کے لئے دشوار تھا۔ کچھ حقائق کا تعلق نوازشریف کے ماضی سے ہے، کچھ کا حال سے۔
گزشتہ ہفتے وہ اسپ ِ تازی پر سوار،جی ٹی روڈ کو پانی پت بنائے اپنے تئیں فیصلہ کن جنگ لڑرہے تھے۔ رواں ہفتے وہ ایک سست گھوڑے کی طرح ہیںجو آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہے اور اس کی چال ڈھال سے اشتعال کی بجائے ڈھلتی عمر کی پرچھائیاں ٹپکتی ہیں۔ بی بی سی اردو کو انٹرویو (پاکستانیوں سے مخاطب ہونے کے لئے اس میڈیم کے انتخاب پر عقل حیران ہے )اُنھوںنے اس فن کا مظاہرہ کیا جس میںطویل گفتگو کو بہت مہارت سے ہر قسم کے معانی اور مفہوم سے پاک رکھا جاتا ہے۔ اُنھوں نے حقائق پر غچہ دیا، اہم معاملات کو ٹالا اور اُس موضوع سے صاف پہلو بچا گئے جس پر وہ اپنے دل کا غبار نکالنے کا وعدہ برسوں سے کرتے چلے آئے تھے۔
اس کی بجائے اُنھوںنے سازش کی بات کی، اور یہی بات اُن کی مرکزی ٹیم مختلف فورمز پر کررہی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی چالبازیوں کا ذکر کیا، اپنے ٹرائل کے غیر معیاری طریق ِ کار پر بات کی لیکن یہ راز ایک بار پھر اپنے دل کے نہاں خانوں میں ہی چھپائے رکھا کہ ملک میں سویلین مینڈیٹ کے خلاف سازش(جیسا کہ وہ الزام لگاتے ہیں) کے جال کون بنتا ہے۔ اس راز کو ظاہر نہ کرتے ہوئے اپنے ووٹر سے کیے گئے وعدے سے انحراف کیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُنھوںنے اپنی طاقت سے بڑھ کر وزن کو کندھا دینے کی کوشش کی تھی۔
ایسا نہیں کہ اُن کے پاس سنانے کے لئے کوئی کہانی نہیں۔ پاکستان کے حالات سے تھوڑا سا تعلق رکھنے والا شخص بھی معقول حد تک یقین سے کہہ سکتا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی اور جے آئی ٹی صرف قانونی معاملات نہیںتھے۔ یہاں ایک طاقت ور عامل فعال ہے جو بعض اوقات اتنا واضح ہوتا ہے کہ اُس کے ارادوں سے زیادہ اُس کی دیدہ دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک پہلو ہے، اس سے وہ تصویر مکمل نہیں ہوتی جس کے مختلف فریموں پر نواز شریف نے پردہ ڈال رکھا ہے، اور وہ اُنہیں عوامی معلومات کی گیلری میں لٹکانے سے بوجہ گریزاں ہیں۔
نوازشریف کیمپ اسے دانشمندانہ احتیاط قرار دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن اس دانش کی جڑیں احساس کی اس سرزمین میں پیوست ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس میں ان کی اپنی حماقتوں کا بھی عمل دخل تھا۔ چار سالہ اقتدار کے دوران کیا گیا ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں جس میں وہ شریک نہیں تھے۔ ان کی نااہلی کا باعث بننے والے زوال کا سب سے اہم پہلو طاقت کے دیگر دھڑوں کو خوش رکھنے کی مہنگی پالیسی تھی۔ گراوٹ کے سفر پر پھسلنے والے ہر قدم کے ساتھ وہ فیصلہ سازی کے عمل میں اسٹیبلشمنٹ کو مزید مواقع فراہم کرتے گئے، یہاں تک کہ پورا ہاتھی خیمے میں آگیا۔ اس کا سب سے اہم پہلو دہشت گردی کی جنگ کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں دینا تھا۔ پیشہ ورانہ مہارت کی غیر جذباتی جانچ کی بجائے ذاتی اوصاف کے گن گانے کی روایت میں اُنھوںنے جنرل راحیل شریف کی تعریف میں زمین و ا ٓسمان کے قلابے ملا دئیے۔ سابق جنر ل جو کچھ کرتے گئے، نواز شریف نے آنکھ بند کرکے حمایت کی۔ ہمیں یاد ہے کہ معمول کی پیشہ ور کامیابیوں پر اُنہیں ’’جنرلوں کا جنرل ‘‘ قرار دیا گیا، یہاں تک کہ قوم کی خدمات کے صلے میں اُنہیں فیلڈ مارشل کا درجہ دینے کی بات کی جانے لگی۔
شمالی وزیرستان کے محدود علاقوں میں کیا جانے والا فوجی آپریشن ضرب عضب ایک ایسا تریاق قرار پایا جو قوم کے ہر مسئلے کا شافی علاج تھا۔ اس ددران اے پی ایس جیسے بہت سے سیکورٹی سقم کا قوم نے خمیازہ بھگتا لیکن مجال ہے جو کسی سے کوئی جواب طلبی کی گئی۔ اس کی وجہ سویلین حکومت کی غلطی اور غفلت سے تعمیر ہونے والی وہ بے داغ ساکھ تھی جو اب پروں پر پانی بھی نہیں پڑنے دیتی تھی۔ یہی کچھ نیشنل ایکشن پلان، فوجی عدالتوں کے قیام، پنجاب اور کراچی میں رینجرز آپریشن، چھوٹو گینگ کی گرفتاری، بلوچستان کے معاملات، لائن آف کنٹرول کی صورت ِحال، افغانستان میں پریشان کن پیش رفت اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بابت ہوا۔
بے رغبتی سے کراچی کی امن وامان کی صورت ِحال پر کابینہ میٹنگز کے علاوہ نوازشریف نے سیکورٹی، دفاع اور خارجہ پالیسی پر فیصلہ سازی سے مکمل طور پر دستبرداری اختیار کرلی۔ اُن کے پاس شاید افغان سرحد کے قریب فاٹا ایجنسی کا دورہ کرنے کے لئے وقت، یا موقع، ہی نہیں تھا حالانکہ وہاں کئی عشروں سے ملک کے لئے فیصلہ کن جنگ لڑی جارہی تھی۔ اس طرح بزدلی یا بے بسی کے ساتھ سویلین اتھارٹی کی لگام ہاتھ سے چھوڑ دینا ان کے تمام دور کا خاصارہا۔ اس بے بسی کی عملی تصویر مشرف کے ملک سے فرارکی صورت دکھائی دی۔ اس کے علاوہ جنرل راحیل شریف کا سعودی عرب میں ایک متنازع خدمت سرانجام دینا اور پاکستان کو بھی اس الائنس کا حصہ بنا دینا جس پر خود پارلیمنٹ میں سوالات اٹھائے گئے، بھی کنٹرول سے دستبردارہونے کی ایک مثال تھی۔ ڈان لیکس تنازع بھی کم مہلک نہ تھا۔ نوازشریف نے خود اسے قومی سطح کا بحران بن جانے کا موقع دیا یہاں تک کہ اُنہیں اپنے کچھ رفقا کی قربانی دینا پڑی۔ اُس خبری کہانی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے ملک کی سیکورٹی میں بھونچال آجاتا۔ اگر حقائق غلط تھے تو (جو کہ سرکاری بیان کے مطابق غلط تھے ) تو پھر اسے ردی کی ٹوکری کی نذر کردینا چاہیے تھا۔ اگریہ معاملہ معلومات کے افشا ہونے کا تھا تو سادہ سا انتظامی ایکشن کافی تھا۔
لیکن نوازشریف نے ان میں سے کوئی قدم بھی نہ اٹھایا۔ اس کے بعد اُنھوںنے خود سپردگی کے عالم میں اپنے گرد جے آئی ٹی کی رسی لپٹنے دی اور اس بات کا احساس نہ کیا کہ یہ جے آئی ٹی ایک دن اُ نہیں ہر صورت اقتدار سے محروم کردے گی۔ حتیٰ کہ کمان میں تبدیلی کے بعد بھی اختیار سے دستبردار ہونے، خوش کرنے، قدم پیچھے ہٹانے اور اپنا کنٹرول کم کرتے جانے کے طور طریقوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اپنے پائوں پر اتنے کلہاڑے مارلئے کہ کھڑے ہونے کی سکت بھی باقی نہ رہی۔ اس کے بعد تو ایک دھکا ہی کافی تھا۔
جب اُن کے ہاتھ سے بتدریج اتھارٹی نکل رہی تھی تو اُنھوں نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ کیا کوئی ملاح اپنے ہاتھ سے چپو گراتا ہے یا پتوار پر کسی اور کو ہاتھ رکھنے دیتا ہے؟ ناقص مشورے، غلط جانچ، اپنے فیصلوں کے نتائج سے چشم پوشی، لیکن ان عوامل سے بڑھ کر فیصلہ کن عنصر اُن کی اپنی سیاسی تاریخ تھی جس نے انہیں کبھی بھی سویلین مینڈیٹ اور آئینی اتھارٹی کا بھرم رکھنے والا لیڈر بننے کی اجازت نہ دی۔ نواز شریف کے کندھوں پر ضیا کی انگلی تھام کراپناسیاسی سفر شروع کرنے کا بھی بوجھ ہے۔ مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل سے وقتی طور پر جان چھڑانے اور قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے اختیار سے دستبردار ہونے کی عادت بھی فطرت ِ ثانیہ کا حصہ ہے۔ پارلیمانی اتھارٹی کو نافذ کرنے سے گریزاسی تصور کی باقیات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھ کر اور اس کی تعریف کرکے ہی جمہوری اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نااہل ہونے کے بعد اُنہیں اس غلطی کا احساس ہوچلا ہے کہ بیک وقت دو کشتیوں میں پائوں رکھنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ کیا یہ احساس ہونے میں بہت دیر ہوچکی۔ ابھی بھی اُن کے پاس سیاسی سکت موجود ہے کیونکہ اُن کی جماعت مرکز اور پنجاب میں اقتدار میں ہے۔ مزید یہ کہ ڈیجیٹل انفارمیشن کے اس دورمیںحکومت کی تبدیلی کا کوئی منصوبہ بھی خفیہ نہیں رہ سکتا۔ جھوٹی معلومات درست معلومات کو نہیں چھپا سکتیں۔ خاموشی سے بنائے گئے منصوبے لمحہ بھر میں جنگل کی آگ کی طرح چہار عالم پھیل جاتے ہیں۔ اس کے برعکس سوچنے والوں کو اپنا خیال بدلنا ہوگا۔
اب نوازشریف کے پاس کھیلنے کے لئے سیاسی پتے اور مرحلہ وار ’’ڈی فائل‘‘ (ڈس کوالیفکیشن فائل) کو کھولنے کا آپشن موجود ہے۔ وہ اسی آپشن کے سہارے مشکلات کے گرداب سے باہر آنے کی کوشش میں ہیں۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ ترکیب کس حد تک کارگر رہتی ہے۔ لیکن ایک سوال اپنی جگہ پر موجود، کہ کیا نواز شریف اُن مسائل کو کبھی حل کرسکیں گے جو اُن کے، اور اُن کی وجہ سے ملک کے دامن گیر ہیں؟ کاش اُنہیں خود کو حاصل مینڈیٹ کی قدرپہلے ہوجاتی، وہ منتخب شدہ رہنمائوں کی سی فعالیت دکھاتے، اُن میں کچھ حوصلہ اور سکت ہوتی اور، سب سے بڑھ کر، سویلین اداروں کو مضبوط کرنے میں کچھ دلچسپی لیتے۔ اگر وہ یہ کچھ کرچکے
ہوتے تو آج مضبوط اخلاقی سرزمین پر پورے قد سے سر اٹھا کر سچ بولتے۔
نوازشریف یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اُنہیں اقتدار سے اس لئے نکالا گیا کیونکہ اُنھوںنے بہت زیادہ مزاحمت کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنہیں اس لئے اقتدار سے محروم ہونا پڑا کیونکہ اُنھوں نے کسی مزاحمت کے بغیر اپنے اختیار سے دستبردار ہونے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی تاکہ بس آج کا دن سکون سے گزر جائے۔ اس طرح کے معاہدے المیہ انجام کے بغیر نہیں ہوتے۔

تازہ ترین