• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے لئے یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ایک ہی صف میں اتنی اہم شخصیات کو کسی کے احترام میں ایک ساتھ سرجھکائے افسردہ کھڑے دیکھا۔ اس صف میں پاکستان کے صدر، گورنر، وزیراعلیٰ اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، آرمی اور فضائیہ کے سربراہان، نیوی کی اعلیٰ قیادت، ڈی جی رینجرز، سندھ اور کراچی کے آئی جیز، میئر کراچی، پاکستان میں جرمنی کے سفیر، وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی، وزراء اور سینیٹرز سمیت ملک کی بیشتر اہم شخصیات شامل تھیں جن کے چہرے کی افسردگی سے ایسا لگتا تھا کہ شاید ان کا کوئی بہت قریبی اس دنیا سے رخصت ہوگیا ہو۔ وہ افسردہ کیوں نہ ہوتے کہ آج وہ ایسی عظیم شخصیت کی آخری رسومات میں شریک تھے جس نے اپنی زندگی کے 57 سال پاکستان میں انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردئیے اور مرتے دم تک انسانیت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں بھی اس صف میں موجود تھا۔ کچھ دیر بعد فوجی جوان ڈاکٹر رتھ کا تابوت جو قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ اپنے کاندھوں پر اٹھاکر لائے اور آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد تابوت کو قبر میں اتارا گیا۔ اس موقع پر پاک فوج کے دستے نے آرٹلری گنز کی سلامی دی اور بعد ازاں وہاں موجود تمام اہم شخصیات نے ڈاکٹر رتھ فائو کی قبر پر پھولوں کے گلدستے رکھے۔ میں نے ڈاکٹر رتھ فائو کی قبر پر عقیدت سے پھولوں کا گلدستہ رکھا تو میری سوچیں مجھے ماضی میں لے گئیں جب وہ 1963ء میں پہلی بار کراچی تشریف لائی تھیں۔
ڈاکٹر رتھ فائو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھیں اور جرمنی کی فلاحی تنظیم ’’ڈاٹرز آف ہارٹ آف میری‘‘ (Daughters of Heart of Marry) سے وابستہ تھیں۔ 1963ء میں جرمن تنظیم نے ڈاکٹر رتھ کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا جہاں اُنہیں مدرٹریسا کی فلاحی خدمات کا حصہ بننا تھا مگر ڈاکٹر رتھ نے جرمنی سے براہ راست بھارت جانے کے بجائے کراچی سے براستہ بھارت جانے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں اُس زمانے میں اُن کی تنظیم میکلو روڈ (آئی آئی چندریگر روڈ) سٹی اسٹیشن کے قریب جھونپڑپٹی میں ایک ڈسپنسری چلارہی تھی جہاں کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر رتھ نے جب مریضوں کی حالت زار دیکھی کہ اُن کے جسم پر کیڑے رینگ رہے تھے اور اُن سے اٹھنے والی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ انسانیت کی اس قدر قابل رحم حالت کو دیکھ کر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ کیا اِن مریضوں سے زیادہ بھی کسی اور کو میری ضرورت ہوسکتی ہے۔ اس طرح ڈاکٹر رتھ نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اور جرمنی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنی زندگی انسانیت کی خدمت اور پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خاتمے کیلئے وقف کردی۔
کوڑھ ایسا مرض ہے جس میں انسان کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے، جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور شدید بدبو آتی ہے۔ اُس زمانے میں کوڑھ کے مریض کو شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویران جگہ پر سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ 1960ء تک پاکستان میں کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے اور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا۔ کوڑھ کے مریضوں کیلئے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تھیں جو ’’کوڑھی احاطہ‘‘ کہلاتی تھیں، لوگ اپنی آنکھوں، منہ اور ناک پر کپڑا لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے اور مریضوں کیلئے دیواروں کے باہر سے کھانا پھینک کر چلے جاتے تھے۔ پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے کیونکہ یہاں کوڑھ کو ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا تھا اور کوڑھ کے مریض کے پاس دو ہی آپشن ہوتے تھے، وہ کوڑھی احاطے میں سسک سسک کر جان دیدے یا پھر خود کشی کرلے۔
ڈاکٹر رتھ فائو نے پاکستان آنے کے بعد کراچی کے علاقے برنس روڈ پر پہلے ’’میری لپریسی کوڑھ سینٹر‘‘ کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں میکلو روڈ کی جھونپڑپٹی ڈسپنسری میں موجود کوڑھ کے مریضوں کو سینٹر میں منتقل کردیا۔ علاقہ مکینوں کو جب کوڑھ سینٹر کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے سینٹر کے خلاف ہائیکورٹ میں کیس دائر کردیا مگر ہائیکورٹ کا فیصلہ ڈاکٹر رتھ کے حق میں آیا۔ کچھ عرصے بعد یہ سینٹر اسپتال کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک موقع پر جب اسپتال کی توسیع کیلئے ڈاکٹر رتھ فائو کو اضافی فنڈز کی ضرورت پڑی تو انہوں نے جرمنی واپس جاکر شہریوں کے سامنے جھولی پھیلائی اور اسپتال کیلئے رقم کا بندوبست کیا، اس طرح پاکستان میں کوڑھ (جذام) کے خلاف انقلاب آگیا۔ ڈاکٹر رتھ فائو پاکستان میں جذام سینٹر بناتی چلی گئیں، یہاں تک کہ ملک بھر میں جذام سینٹر کی تعداد 156 تک جاپہنچی۔ ڈاکٹر رتھ کی کوششوں سے چاروں صوبوں میں جذام کا خاتمہ ہوا اور 1996ء میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو ’’لپروسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا۔ ڈاکٹر رتھ فائو گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے تک کسی مفاد اور لالچ کے بغیر دن رات پاکستانیوں کی خدمت کرتی رہیں، اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں نشان قائداعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈرآف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازات سے نوازا گیا جبکہ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ’’ڈاکٹر آف سائنس‘‘ کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ پاکستان میں ڈاکٹر رتھ فائو کو ’’پاکستانی مدرٹریسا‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا، وہ اکثر کہتی تھیں کہ میرا تعلق جرمنی سے ہے لیکن میرا دل پاکستان میں ہے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی سے انسانیت کی خدمت کا کام لینا چاہتا ہے تو اُسے انسانوں کیلئے وسیلہ بنادیتا ہے۔ میرا پورا یقین ہے کہ اللہ نے ڈاکٹر رتھ کو جذام کے مریضوں کیلئے مسیحا بناکر بھیجا اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ انسانیت مذہب و نسل سے ماورا اور سرحدی حدود سے مبرا جذبہ ہے جس کیلئے ڈاکٹر رتھ نے اپنی پوری زندگی وقف کردی اور شادی تک نہیں کی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں دو لڑکوں جن میں ایک مسلمان محمد اقبال اور دوسرا کرسچن میروین لوبو ہے، کو گود لیا تھا جو اُن کے قائم کئے گئے اسپتال کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ میں ڈاکٹر رتھ فائو کی شخصیت سے بہت متاثر تھا اور مجھے کئی بار اُن سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اُن کی وصیت تھی کہ اُنہیں پاکستان میں دفن کیا جائے جس کی تعمیل کی گئی۔ تدفین کے موقع پر میں نے اُن کے دونوں بیٹوں کو گلے لگاکر کہا کہ ’’آپ کی ماں ایک عظیم اور باہمت خاتون تھیں، مجھے امید ہے کہ آپ اپنی ماں کے مشن کو جاری رکھیں گے۔‘‘ اس موقع پر میں نے اُن کے مشن میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔
پاکستان میں جس عقیدت و احترام کے ساتھ ڈاکٹر رتھ فائو کی آخری رسومات ادا کی گئیں، یہ اعزاز صرف دو شخصیات ہی کو حاصل ہوسکا، پہلی شخصیت معروف سماجی رہنما عبدالستار ایدھی اور دوسری ڈاکٹر رتھ فائو تھیں جبکہ ڈاکٹر رتھ پاکستان کی وہ پہلی غیر مسلم شخصیت تھیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ اِن دونوں ہی شخصیات نے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی زندگی انسانیت کیلئے وقف کر رکھی تھی اور اپنی خدمات سے پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ ڈاکٹر رتھ فائو کی قومی اعزاز کے ساتھ تدفین اور سول اسپتال کراچی کو اُن کے نام سے منسوب کرنا قابل تحسین اقدام ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں یہ مثبت تاثر ابھرا کہ وطن کی خدمات کے سلسلے میں ہم رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر کوئی تعصب نہیں برتتے۔

تازہ ترین