• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ چین نے نیو کلیئر سپلائرز گروپ سے مطالبہ کیا ہے کہ دوسرے ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل کی حمایت کرے اور یہ کہ گروپ دوسرے ممالک کی ضروریات کا بھی خیال کرے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ’’ دوسرے فریق ممالک‘‘ سے مراد چین کا اتحادی پاکستان ہے کہ چین کی وزارت خارجہ کے ایک اہم عہدہ دار نے حال ہی میںدہلی میں دیئے گئے بیان میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ پرامن مقاصد کے ایٹمی توانائی کے استعمال کے خواہاں ممالک کی ضروریات کا خیال رکھے ادھر مغربی خبر رساں ایجنسیوں اور حکام اعلیٰ نے بتایا ہے کہ نئے وزیر اعظم خاقان عباسی آئندہ کسی وقت چین کا دورہ کریں گے جہاں وہ بھارت اور امریکہ کی طرز پر پاکستان اور چین کے درمیان سول نیو کلیئر ڈیل پر مذاکرات کریں گے۔ اعلیٰ حکام کے مطابق مجوزہ ڈیل کی تکمیل سے چین،پاکستان کو توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے نیو کلیئر میٹریل سپلائی کرے گا۔
وزیر اعظم خاقان عباسی کے دورہ چین سے ایک بات تو طے ہوتی ہے، امریکہ، پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی نیو کلیئر تعاون یا معاہدہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جیسا کہ وہ بھارت کے ساتھ کرچکا ہے یہ بات امریکی حکام کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی ضروریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ جس طرح کا نیو کلیئر معاہدہ کیا ہے اس قسم کا نیو کلیئر تعاون معاہدہ وہ پاکستان کے ساتھ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکہ کے کہنے پر بھارت نے انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اور45رکنی نیو کلیئر سپلائرز گروپ( این ایس جی) کے ساتھ اس ایشو پر معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدہ کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا لہٰذا امریکہ کو پاکستان سے بھی ایسا ہی معاہدہ کرنا چاہیے۔ اسی دوران پاکستان کے وزیر اعظم( سابق) میاں نواز شریف نے اپنے دورہ واشنگٹن میں امریکہ سے پر زور مطالبہ کیا تھا کہ جس طرح اس نے بھارت کے ساتھ نیو کلیئر تعاون کا معاہدہ کیا ہے پاکستان کے ساتھ بھی اس طرح کا معاہدہ کرے اور پاکستان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کرے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین کا موقف ہے کہ پاکستان اور بھارت الگ الگ نوعیت کے ممالک ہیں دونوں ممالک کی ضروریات الگ الگ ہیں دونوں ممالک کی سیاست اور کہانیاں الگ الگ ہیں گزشتہ دنوں ایک مغربی سفارت کار نے جوکہ یورپی یونین میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائزہے اپنی شناخت مخفی رکھنے پر مجھے بتایا کہ ’’ امریکہ اور پاکستان کے درمیان جس طرح کے تعلقات ہیں وہ علیحدہ نوعیت رکھتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کرنے کے وعدہ کا پابند ہے ہمارے خیال میںپاکستان کا نیو کلیئر عدم پھیلائو ریکارڈ ایسا صاف نہیں جیسا کہ بھارت کا، اس کے علاوہ پاکستان کو توانائی کی ایسی ضرورت نہیں ہے جیسے کہ بھارت کو ہے‘‘۔
پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے امریکہ کو ’’ خبردار‘‘ کیا ہے کہ بھارت امریکہ نیو کلیئر تعاون سے فوجی توازن میں پیچیدگی پیدا ہوجائے گی کہ اس معاہدے کے نتیجے میں بھارت اپنا میٹریل تیار کرسکے گا اور تحفظ کے دائرہ کو پس پشت ڈال کر نیو کلیئر ری ایکٹروں سے حاصل کردہ مادے سے نیو کلیئر بم تیار کرسکتا ہے پاکستان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ، پاکستان اور بھارت کے ساتھ پیکیج کے طریقہ کار پر عمل کرتاتو اس سے جنوبی ایشیا میں فوجی تعاون اور نیو کلیئر عدم پھیلائو کا مقصد حاصل ہوتا اور نیو کلیئر دوڑ کا تدارک ہوجاتا علاوہ ازیں دونوں ملکوں کی نیو کلیئر ٹیکنالوجی سے بجلی پیدا کرنے کی جائز ضرورت کا ازالہ ہوجاتا۔ پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان علاقے میں اسلحہ کی دوڑ کو نظر انداز کرنے کے باوجود اپنی سلامتی سے غافل نہیں رہ سکتا اور توانائی کے شعبہ کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ چین نےپاکستان کو تین سو میگا واٹ کے دو پلانٹ چشمہ ون اور چشمہ ٹو دے رکھے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ملک میں بجلی کا بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
میرے حساب سے یہ درست ہے کہ ایشیا کے دوبڑے ممالک چین اور بھارت اپنی نیو کلیئر طاقت میں اضافہ کررہے ہیں ان کے علاوہ دیگر ایشیائی ممالک بھی یاتو نیو کلیئر طاقت بننے کی تیاری کررہے ہیں یا اپنے ملک میں سویلین نیو کلیئر پروگرام چلانے کا ارادہ ظاہر کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر ویت نام نے آئندہ دس برسوں میں دونیو کلیئر ری ایکٹر نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے تھائی لینڈ میں بھی نیو کلیئر پلانٹ کی تعمیر کیلئے ریسرچ جاری ہے۔ ملائشیا نے بھی کہا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اپنی نیو کلیئر طاقت کے بارے میں غوروخوض کرے گا اس کے علاوہ جنوبی کوریا نے بھی نیو کلیئر پاور پلانٹس کی تعداد میں اضافہ کرنےکا اعلان کررکھا ہے۔ جاپان جو ایشیا کا حصہ ہے اور امریکہ اور فرانس کے بعد ایسے پروگرام چلانے والا تیسرا بڑا ملک ہے وہ بھی نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں تیس تا چالیس فیصد اضافہ کرنے میں مصروف ہے لیکن اس سلسلے میں جاپان بہت محتاط ہے کہ 1999میں کائیموراپلانٹ میں ایک حادثہ ہواتھاوہ اب دوبارہ اس طرح کا کوئی حادثہ یا واقعہ کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسری جانب ہانگ کانگ کی انتظامیہ پر شدید دبائو ہے کہ وہ ملک میں نیو کلیئر اٹیمی پلانٹ کی تعمیر جلد ازجلد کرےیا پھر سرحد کی دوسری جانب چین سے فائدہ اٹھائے اس کا مقصد جزیرہ کے بگڑتے ہوئے ماحول یعنی ماحولیات کا تحفظ کرنابھی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہانگ کانگ نے اس آلودگی پر قابو نہ پایا تو دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کے تجارتی تعلقات خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب ہم پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو کوئی بھی ہماری بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے نہ نیو کلیئر انرجی کے فقدان کے بارے میں نہ ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے بارے میں اور نہ دہشت گردی کے عدم پھیلائو کے بارے میں لگتا ہے گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں۔ کوئی ملک بھی ہماری بات کا یقین کیوں نہیں کرتا ؟۔ علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نا مہرباں کیوں ہیں، یہاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رات کیوں ٹھہر گئی ہے ؟کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کا قحط ہے؟ آخر خرابی کہاں ہے؟
میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔

تازہ ترین