• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی کے عظیم رہنما رجب طیب ایردوان کے دور سے قبل جب ہم ترکی میں سیکولرازم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہ سیکولرازم مذہب اسلام کےمخالف ہونے کے ساتھ ساتھ یک طرفہ نام نہاد سیکولراز م کے طور پر دکھائی دیتا ہے حالانکہ سیکولرازم کی اصطلاح دینے والوں نے اسے ریاست کے معاملات یا امور میں کسی بھی مذہب کو برتری نہ دینے بلکہ تمام مذاہب کے ساتھ غیر جانبداری سے پیش آنے اور ملکی امور میں کسی ایک مذہب یا فرقے کو دوسرےپر فوقیت نہ دینے سے تعبیر کیا تھا۔ جدید جمہوریہ ترکی کے بانی غازی مصطفیٰ کمال نے بھی جب ملک میں سیکولرازم متعارف کروایا تو ان کا ہدف بھی ملک میں صحیح معنوں میں سیکولرازم کی روح کے عین مطابق عمل درآمد کروانا تھا۔ اگرچہ انہوں نے مزاروں ، مقبروں، خانقاہوں وغیرہ پر حاضری اور پوجا پر پابندی عائد کروادی تھی لیکن یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے کیا گیا تھا کیونکہ مذہب اسلام میں االلہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کا وسیلہ بنے۔ اگر انہوں نے ملک میں خلافت کاخاتمہ کیا تھا اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے سلاطین کا مغرب کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جانا تھا جس سے عالمِ اسلام کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا۔ ان پر مساجد پر تالے لگانے اور اصطبل بنائے جانے کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں ذرہ بھر میں صداقت نہیں البتہ ان کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہونے کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عصمت انونو جو بعد میں اتاترک کی رحلت پر سازش کرتے ہوئے ملک کے صدر بھی منتخب ہوگئے تھے نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی زبان میں اذانِ محمدی پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ مساجد بند کروانے مدرسوں میں قرانِ کریم کے درس بند کروانے، مساجد کو اصطبلوں میں ڈھالنے اور تالے لگوانے میں اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے سیکولرازم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اوریوں انہوں نے سیکولرازم کو اسلام دشمنی کا روپ دینے کی بنیاد رکھ دی جس کی وجہ سے مسلمان اس نظام کو اسلام دشمنی کے طور پر دیکھنے لگے۔ عصمت انونو کے سیکولرازم کے نام پر لگائے جانے والے اس پودے نے دیگر ممالک میں بھی پھلنا پھولنا شروع کردیا اور یوں اسلامی ممالک میں سیکولرازم ناپسندیدہ عنصر کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ خاص طور پر اس دور کی ترک فوج سے لے کر ایردوان کے دور سے قبل تک کی فوج نے سیکولرازم کومذہبی حلقوں پر ظلم و ستم کے لئے استعمال کیا ۔ ترک فوج کے اندر نماز ادا کرنے والے فوجیوں کی خفیہ رپورٹس تیار کرتے ہوئےان کی اے سی آر خراب کی جانے لگی اور بعد میں ہر سال اعلیٰ عسکری شوری کے اجلاسوں میں اس قسم کے فوجیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو فوج سے نکال باہر کیا جاتا رہا۔ پھر فوج اور ری پبلکن پیپلزپارٹی کے گٹھ جوڑ سے یونیورسٹیوں میں ہیڈ اسکارف پہننے والی طالبات پر دروازے بند کیے جانے لگے حالانکہ کسی بھی مغربی ملک میں اس قسم کے سیکولرازم کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے متعارف کردہ سیکولرازم نے پورے ترکی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اورسب سے پہلے مرحوم نجم الدین ایر بکان کی رفاہ پارٹی نے اس کیخلاف آواز بلند کی۔ ایردوان اس وقت پارٹی کا حصہ تھےبعد میں جب انہوں نےنئی پارٹی تشکیل دی تو سب سے پہلے سیکولرازم کےنام پر کی جانے والی غنڈہ گردی یعنی طالبات کے ہیڈ اسکارف پہن کر یونیورسٹیوں میں تعلیم کے بند کیے جانے والے دروازوں کو کھولنے اور اس کے لئے قومی اسمبلی میں قوانین پاس کروانا کا وعدہ کرتے ہوئے مظلوم طالبات اور عوام کی نہ صرف ہمدردیاں حاصل کیں بلکہ 2002 کے عام انتخابات میں عوام نے تیس سالوں بعد ان کی جماعت کو کلی اکثریت دلوائی یوں سیکولرازم کے نام پر لگے ہوئے دھبے کو دھونے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعدجیسے جیسے ان کی حکومت مضبوط ہوتی چلی گئی انہوں نے قومی اسمبلی میں قوانین میں ترامیم کرواتے ہوئے ہیڈ اسکارف پر لگی ہوئی پابندی کو ختم کروایا اور مذہبی گھرانوں کی خواتین کے لئے بھی ملازمت کے دروازے کھول دئیے۔ علاوہ ازیں ایک ایسے دور میں جب ترکی کی قومی اسمبلی میں کسی بھی خاتون رکن کے ہیڈ اسکارف پہن کر پارلیمنٹ میں ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کو رکنِ پارلیمنٹ منتخب کروا کر اور بعد میں وزیر بنا کر سیکولرازم کی نام نہاد اور یک طرفہ تشریح پر کاری ضرب لگادی۔ ذرا سوچئےسیکولرازم کے نام پر اس سے بڑھ کر اور کیا ستم ظریفی ہوسکتی ہے کہ فوجی اسپتالوں میں ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین اورباریش مردوںکے علاج و معالجے پر پابندی ہو یہ سب کچھ ملک میں طویل عرصے تک سیکولرازم کے نام پر کیا جاتا رہا ۔ یوں اسلامی ممالک میں سیکولرازم کی اصطلاح کو مذہب دشمنی کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرازم کی تشریح کچھ یوں کی گئی ہے۔
"The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country"
( ایک نظریہ جس کے مطابق مذہب کو ملک کے عام سماجی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے) ایک اور بڑی سادہ اور آسان سی تشریح کچھ یوں ہے۔ "Secularism is more than religious harmony" (سیکولرازم مذہبی ہم آہنگی سے بھی بالاتر ہے)۔ زیادہ تر انگریزی لغات میں سیکولرازم کی تشریح اسی طریقے ہی سے کی گئی ہے ۔اردو میں سیکولرازم کی صحیح تشریح کچھ یوں ہونی چاہئے۔ ”تمام مذاہب کے ساتھ رواداری، غیر جانبداری اور ملکی نظم و نسق، سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے ایک ہی فاصلے پر کھڑا ہونے اور کسی بھی مذہب اور فرقے کو کسی دیگر فرقے اور مذہب پر کسی بھی طرح برتری حاصل نہ ہونے، تمام مذاہب اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت حاصل ہونے ہی کا نام سیکولرازم ہے“۔ صدر ایردوان نے سیکولرازم کو تمام اسلامی ممالک میں متعارف کروانے اور اس نظام پر عمل درآمد کروانے کا کئی بار اپنی تقریروں میں برملا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق تمام اسلامی ممالک میں مذہبِ اسلام کو اصل روح کے عین مطابق نافذ کیا جانا چاہیے اور کسی ایک فرقے یا مسلک کو کسی دوسرے فرقے یا مسلک پر برتری دینے کی ہر گز کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔ اسی لئے انہوں نےملک میں نام نہاد سیکولرازم کی آڑ میں مفتی اور علما پر سرکاری نکاح پڑھانےکی جو پابندی تھی اسے ختم کروادیا اور اب ترکی میں مفتیوں اور علما کو بھی یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ سرکاری نکا ح پڑھ سکتے ہیں اور نکاح نامے پر اپنے دستخط ثبت کرسکتے ہیں۔ رجب طیب ایردوان نے ایک پکے اور سچے مسلمان ہونے کے ناتے سیکولرازم کی اس کی اصل اور صحیح روح کے مطابق تشریح کی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان میں بھی سیکولرازم کے بارے میں جو منفی سوچ اور غلط تشریح کی جاتی ہے ترک رہنما ایردوان کی جانب سے سیکولرازم پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کروانے سے اس سوچ اور غلط تشریح کو ختم کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔

تازہ ترین