• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سردی کے موسم میں گرمی پڑنے لگے یا گرمی کے موسم میں حد سے زیادہ گرمی پڑنے لگے، بارشوں کے موسم میں بارش نہ ہو اور غیرمتوقع طور پر سیلاب آنے لگیں، سمندری جنگلات سمندر برد ہونے لگیں یا پہاڑوں پر موجود برف وقت سے پہلے پگھل کر پانی ہونے لگے،غیر متوقع زلزلے و سونامی آنے لگیں تو یہ سب موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں کہلاتی ہیں جس کے کرہ ارض اور انسانیت پر سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں اور سائنسدانوں نے اس بات کا ادراک ایک دہائی پہلے کرلیا تھا تاہم عالمی برادری کو موسمیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کا احساس دلاتے بہت وقت لگ گیا تاہم حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اس سنگین مسئلے سے بالکل ناواقف ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک اس خطرناک مسئلے کے اثرات سے تیسری دنیا کے ممالک کو آگاہ کرنے میں مصروف ہیں ان کی کوششوں سے تیسری دنیا کے کئی ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارتیں تو وجود میں آگئی ہیں تاہم معلوم نہیں وہ کیا کام کررہی ہیں، جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو کیا پاکستانی عوام اس بات سے واقف ہیں کہ صرف دنیا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلی کتنا اہم مسئلہ اختیار کرگیا ہے جی ہاں اگلی چند دہائیوں میں اگر پاکستان میں حکومتی سطح پر فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لئے منصوبہ بندی کے تحت کام شروع نہیں کیا گیا تو پاکستان کو اپنی بقا کے لئے دشمن ممالک سے اتنا خطرہ نہیں ہوگا جتنا ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، ایک جرمن تنظیم کے مطابق عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مانیٹر کرنے والے برطانوی ادارے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا پاکستان کے تین بڑے صنعتی شہروں کو ہے جن میں کراچی، فیصل آباد اور لاہور ہیں جوآلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، ایک اورسروے کے مطابق 2014ء میں پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پانچ ممالک میں سے ایک تھا۔پاکستان اکانومی سروے کے مطابق 2010-2012 کے دوران پاکستان میں آنے والے سیلابوں میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اورمعاشی طور پرپاکستان کو سولہ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دوہزار پندرہ میں کراچی میں پڑنے والی شدید گرمی کی لہر، چترال میں سیلاب اور تھر میں خشک سالی سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے۔ پاکستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنولوگی نے خبر دار کیا ہے کہ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کراچی کی کوسٹ لائن پر ختم ہوتے ہوئے جنگلات سے اس بات کا خطر ہ ہے کہ اگلے پینتیس سے پینتالیس سالوں کے اندر کراچی کسی بڑی سمندری تباہی کاشکار ہو سکتا ہے،اس حوالے سے عالمی تنظیم WWFوائلڈ لائف فیڈریشن کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سمندری پٹی پر جنگلات تیزی سے کم ہورہے ہیں قیام پاکستان کے وقت پاکستان کو ساحلی پٹی پر چار لاکھ ہیکٹر جنگلات ملے تھے جو اب صرف ستر ہزار ہیکٹر رہ گئے ہیں جس میں سی لیول کا بڑھ جانا، سمندری زمین پر قبضہ سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔
جہاں تک جاپان کی بات ہے تو جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں،جاپان کی حکومت نے عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں کے جاپان اور دنیا پر پڑنے والے اثرات سے آگہی فراہم کردی ہے۔ جاپان کی ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارت کے دفتر میں ہر روز ایک گھنٹے کے لئے تمام کمپیوٹرز بند رہتے ہیں تاکہ اس وزارت میں کام کرنے والے افراد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس ہوسکے،جبکہ حکومت جاپان نے انفرادی طور پر گرین ہائوس گیس کے اخراج کو کم کرنے کے لئے ٹارگٹ سیٹ کئے ہوئے ہیں اس ٹارگٹ کو Intended nationally determined contribution” (INDC) کانام دیا گیا ہے جس کے تحت جاپانی حکومت 2030ء تک گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں 2005ء کے مقابلے میں 25.4فیصد تک کمی لائے گی جبکہ 2013ء کے مقابلے میں 26فیصد تک کمی لائے گی، صرف یہی نہیں بلکہ جاپانی حکومت نے تیسری دنیا کے ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچائو کے لئے بہت بڑے فنڈکا اجرا بھی کیا ہے جس کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر ہے اس فنڈ کانام Green Climate Fund (GCF). رکھا گیا ہے یہ فنڈ تیسری دنیا کے ان ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوں یا متاثر ہونے کے امکانات رکھتے ہوں، کئی ممالک میں جاپانی حکومت یہ فنڈ درخت لگانے کے لئے بھی فراہم کررہی ہے تاکہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج پر درختوں کے ذریعے قابو پانے میں مددملے۔جہاں تک پاکستان کی بات ہے اس وقت حکومت پاکستان نے سینیٹر مشاہدا للہ خان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وزارت کا قلمدان سونپا ہے، یہ وزارت انھیں اس حکومت میں دوسری دفعہ ملی ہے پچھلی بار انھوں نے کئی منصوبوں پر کام شروع کیا تھا جو ادھورے رہ گئے تھے تاہم توقع ہے کہ اس بار اپنے دوروزارت میں ادھورے منصوبوں پر ایک بار پھر کام شروع کریں گے۔انہیں جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے،جاپان کے ساتھ ملکر پاکستان میں درختوں لگانے کے ایسے منصوبے شروع کرنے چاہئیں جو عالمی برادری کو نظر آئیں، اپنی وزارت میں جاپان کی طرز میں ایک گھنٹے کے لئے روزانہ کمپیوٹرز اور فالتو لائٹس بند کرانے کا سرکاری اعلان کرنا چاہئے، اسکولوں کی سطح پر بچوں کے ساتھ مل کر درخت لگوانے کی مہم شروع کرنی چاہئے، سندھ کی ساحلی پٹی پر موجود جنگلات کو بچانے کے لئے حقیقی اقدامات کرنا چاہئیں،سب سے اہم عوام میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لئے میڈیا کا استعمال کرنا چاہیے،وزارت اطلاعات کے ساتھ مل کر اس موضوع پرڈرامے بھی بنائے جاسکتے ہیں، ماحولیات کا قومی دن منایا جاسکتا ہے غرض بہت سے منصوبے حکومت جاپان کے مالی و تکنیکی تعاون سے شروع کیے جاسکتے ہیں، حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم عرصہ باقی ہے،وقت کم ہے اور مقابلہ سخت، جناب وزیر محترم صاحب پاکستانی عوام اور عالمی برادری کی نظریں آپ پر ہیں۔

تازہ ترین