• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر رُتھ فائو دنیا سے رخصت ہوئیں تواندازہ ہوا کہ وہ گنتی کے چند پاکستانیوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں پوری قوم مثبت سوچ رکھتی ہے۔ اِس سے قبل صرف قائد اعظم محمد علی جنا ح اور مولانا عبدالستار ایدھی وہ شخصیات رہی ہیں جنہیں غیر متنازع سمجھا جاتارہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ جن سے متعلق شاید ملک کا کوئی بھی حلقہ کسی منفی بات یا سوچ کی بظاہر حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتا۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے کہ قوم نے اِن دو عظیم ہستیوں کے بعد جس تیسری شخصیت کو یہ رتبہ دیا ہے وہ بنیادی طور پر یورپی ہیں، غیر مسلم ہیں ، سفید فام ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک عورت ہیں۔
عام تاثر ہے کہ ملک میںکسی بدعنوان یا بد کردا ر فرد کے لئے سزا سے بچ جانا اور معاشرے میں اپنا مقام برقرار رکھنا ایک عام با ت ہے ۔لیکن کسی قابل اور با کردار شہری کا عقیدہ ، جنس اور زبان اِس کی ترقی اور تحفظ کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔ یہاں بسنے والوں کو اِن تین عناصر کے سبب اپنی روز مرّہ سرگرمیوں کے دورا ن اور عام گفتگو میں خاص احتیاط برتنا پڑتی ہے ۔
عقیدے ، جنس اور زبان کی بنیا د پر کسی کی زندگی کا عذاب ہوجانا پہلے ہی معاشرے کا بڑا المیہ ہے۔ لیکن اگر کسی فرد کی خاص قابلیت ، خدمات اور ایمانداری کے سبب معاشرہ اِس کی شخصیت سے جڑے ان تین عناصر کو نظر انداز بھی کر دے تواَب چندلوگ اِس کی آخرت کو نشانہ بنانے پر بھی اُترسکتے ہیں۔ڈاکٹر رُـتھ کی آخری رسومات سے متعلق سوشل میڈیا پرزیر بحث کچھ تکلیف دہ سوالات اِس رجحان کا واضح بثبوت ہیں ۔
زیر بحث ایک سوال تھا کہ ڈاکٹر رُتھ فائو جنّت میں جائیں گی یا نہیں ؟ اگرچہ کچھ نے اس سوال پر انتہائی سمجھ داری کے ساتھ اپنے ردّ عمل کا اظہار کیالیکن کچھ تبصرے پڑھ کر احساس ہو ا کہ قوم میں اِس فرشتہ صفت عورت کے لئے بھی بغض موجود ہے۔ کیا انسانیت ، تہذیب اور تاریخ ڈاکٹر فائو جیسی ہستی کو بھی اِن کے عقیدے ، جنس یا زبان کی بنیاد پر پرکھ سکتی ہے ؟
ملک کے شہری ، سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے نصف صدی سے زائد عرصے تک جذام کے مریضوں کے لئے ڈاکٹر رُتھ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا رہا، مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اسکالرز اور میڈیا روز اوّل سے اِن کے جذبے، محنت اور ایمانداری کو سراہتے آرہے ہیں اور ملک کے مختلف منتخب اور فوجی حکمرانوں کے ادوار میں اُن کو ایوارڈز بھی ملتے رہے ہیں۔ لیکن اَب سوشل میڈیا کی بدولت ایک نیا فکری حلقہ وجود میں آیا ہے جوحقائق اور تاریخ کو پس پشت ڈال کر اس بے مثال خاتون کے جنّتی ہونے یا نہ ہونے پر تحقیق کررہاہے۔
اس قسم کا روّیہ بظاہر انتہا پسندی اور ہیجان کے اظہار کا ایک انداز ہے۔ یہ ہیجان اور اظہار کا یہ انداز دراصل اجتماعی طور پر قوم کے مہذب ہونے پر شک و شبہات کا سبب بنتے ہیں ۔ المیہ یہ کہ اس غیر مہذب روّئیے کی مثالیں کہیں کہیں ماضی میں بھی ملتی ہیں ۔ یہ مثالیں انتہائی حیرت انگیز اور المناک ہیں۔
بہت پرانی بات ہے ، پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب براہ راست دکھائی جارہی تھی ۔تقریب کے دوران ایک معروف مسیحی رہ نما کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی ۔ اَبھی مسیحی رہ نما اسٹیج پر تشریف لایا ہی چاہتے تھے کہ ہال میں موجودکچھ لوگوں نے شور و غل برپا کردیا۔ لاکھوں پاکستانیوں نے میزبان کو براہ راست شور کرنے والوں کی منت سماجت کرتے دیکھا لیکن نفرت کے ہیجان میں مبتلا وہ شور کرنے والے بمشکل قابومیں آئے ۔ یہ انتہائی شرم کا مقام تھا۔
قوم کو اجتماعی سطح پر اس قسم کی ندامت سے دوچار کرنے والا ایک اور واقعہ ہاکی میچ کی کمنٹری کے ایک حیرت انگیز انداز سے متعلق ہے ۔ اس میچ میں پاکستان اور بھارت مد مقابل تھے اور ایک معروف اسپورٹس صحافی ٹی وی پر براہ راست رواں تبصرہ کررہے تھے ۔ مقابلہ جاری تھا کہ ہندوستان کے دو فارورڈزدھنراج پلّے اور سمیر داد تیزی سے پاکستانی ہاف میں داخل ہوئے ۔ اگرچہ پاکستانی دفاعی لائن نے یہ حملہ ناکام بنا دیا لیکن کمنٹیٹر نے جس انداز میں حملے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا وہ یہ جاننے کے لئے کافی ہے کہ یہاں کچھ لوگوں کا ذہن کس انداز میں سوچتا ہے ۔ میری بہترین یادداشت اور یقین کے مطابق انہوں نے یہ حملہ کچھ یوں بیان کیا ، ’’گیند پلّے کے پاس ہے، پلّے گیند کو لیکر’ڈی‘ میں ؛ خطرناک ہوسکتے ہیں ، انہوں نے سمیر کو پاس دیا؛ سمیر مسلمان ہیں ، سمیر نے گیند واپس پلّے کو دی ، پِلّے کی ٹرائی .....‘‘
اِس واقعہ کو اب کئی برس بیت چکے ہیں اور وہ کمنٹیٹر بھی دنیا میں نہیں رہے ۔ مجھے ان کی حبّ الوطنی پر شک نہیں لیکن میں آج تک سمجھ نہیں پا یا کہ انہوں نے اپنے رواں تبصرے کے دوران بھارتی فارورڈ سمیرداد کے پاس گیند آنے پر اِس کا مذہب کیوں بیان کیا؟ کیا انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بحیثیت ایک پیشہ ور صحافی اور کمنٹیٹر اِن کا اصل کام کیا ہے؟ یا اُن کی خواہش تھی کہ بھارتی فارورڈ سمیرداد مسلمان ہونے کے سبب پاکستان پر گول نہ کریں؟
سال 1978میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم نے برسوں بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ سیریز میں بھارتی وکٹ کیپر سید مجتبی حسین کرمانی نے پاکستان کوبارہا پریشان کیا۔وہ کم از کم دو مواقع پر کافی دیر تک پاکستان اور فتح کے درمیان حائل رہے ۔ لیکن پوری سیریز کے دوران پاکستان میں صرف اِن کے مسلمان ہونے کا چرچہ رہا۔ یہ وہی مسلمان کھلاڑی ہے جس کے بارے میں ایک بار انتہا پسند بال ٹھاکرے نے کہا تھا ، کہ ُ’’ہمیں ایسے ہی ہندوستانی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔‘‘
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں پرورش پانے اور مذہب کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے والے کسی بھی شخص کے لئے یہ واقعات باعث ندامت بھی ہیں اور مضحکہ خیز بھی ! سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی ڈاکٹر ، کھلاڑی ، فنکار ، مصنف یا سائنسدان کی پیشہ ورانہ کارکردگی سے متعلق کسی تجزیے یا گفتگو کے وقت اُس کے عقیدے سے متعلق تجسس کا اظہار کیوں ضروری سمجھا جاتاہے؟ مخالف ہاکی ٹیم کے ایک خطرناک فارورڈ کا مسلمان ہونا کسی پاکستانی کمنٹیٹر کے لیے کیونکر اہم ہوسکتا ہے یا شاندار سنچری مکمل کرنے والے کسی بلّے باز کو کیا اس لئے بھرپور داد نہیں دی جاسکتی کہ وہ غیر مسلم ہے ؟ ڈاکٹر رتھ نے اپنی ترقی یافتہ ، پُر امن اور خوش حال سر زمین کو ہمیشہ کے لئے خیر بادکہہ کر نصف صدی سے زائد عرصہ بد امنی اور معاشی بدحالی کا شکار اِس قوم کے لئے فرشتہ بن کر گزارا ہے ۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹر رتھ کے بارے میں ’ فکر مندی‘ کا اظہار کرنے والے یہ اشخاص ایثار اور قربانی سے بھرپور اِس عورت کی زندگی سے کچھ سیکھ کر اپنی اپنی زندگیاں با مقصد بنا سکتے ہیں۔

تازہ ترین