• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پہلے مجھے میرے عزیز دوست قونصل جنرل مانچسٹر ڈاکٹر ظہور وڑائچ کا فون آیا، میری اور اہل خانہ کی خیریت دریافت کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ مانچسٹر میں میری مدت ملازمت پوری ہو گئی ہے اس لئے میں اپنی فیملی کے ساتھ بارسلونا کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ جناب تشریف لائیں ’’موسٹ ویلکم‘‘ انہوں نے موسم کا پوچھا تاکہ اُس کے مطابق ملبوسات ساتھ لائے جا سکیں، بارسلونا میں سیاحتی مقامات کی معلومات حاصل کیں، میں نے بتایا کہ بارسلونا میں تاریخی پارلیمنٹ کی عمارت، ہزار سال پرانا محل، 163سال سے زیر تعمیر ’’سکرادا فامیلیا چرچ‘‘ تبی دابو، مونسرات کا پہاڑی سلسلہ، معروف آرکیٹیکٹ ’’گاودی‘‘ کے فن تعمیر کے شاہکار، ناچتے فوارے، مارے ماغنم، معروف مصور اور مجمسہ ساز کے نام پر قائم ’’پیکاسو میوزیم‘‘ اور سب سے بڑھ کر بارسلونا فٹ بال کلب کا اسٹیڈیم ’’کانپناؤ‘‘ دیکھنے کے قابل ہیں۔ ڈاکٹر ظہور نے پروگرام فائنل کر لیا اور چار دن بعد بارسلونا آمد کی نوید سُنا دی، ابھی اُن کے آنے میں دو دن باقی تھے کہ انہوں نے مجھے پھر فون کیا، سلام دُعا کے بعد پوچھا کہ یار وہ بارسلونا میں امن عامہ کی صورت حال کیسی ہے؟ میں نے کہا جناب بارسلونا شہر تو اپنے دامن میں مسکراہٹیں سمیٹے ہوئے ہے، یہاں مکمل سکون ,ہر چہرہ تروتازہ اور اپنائیت سے بھرپور ہے۔ نہ لڑائی نہ جھگڑا، نہ فساد، نہ نسلی تعصب، کچھ بھی تو نہیں یہاں،میں بول رہا تھا اور وہ خاموشی سے دوسری جانب سن رہے تھے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیاحت کے اعتبار سے بارسلونا دُنیا کی تیسری بڑی منڈی ہے اور ویسے بھی رواں سال بارسلونا اور اس کے گرد و نواح میں سیاحوں کی تعداد8 سے9 کروڑ تک جا پہنچی ہے اتنی تعداد میں سیاحوں کا بارسلونا کی جانب رُخ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بارسلونا میں امن عامہ کی صورت حال کنٹرول میں ہے۔ ڈاکٹر ظہور بولے کہ میں نے پڑھا ہے کہ کچھ لوگوں نے سیاحوں کو دھمکیاں دی ہیں اور کہا ہے کہ اسپین میں مت آؤ، میںنے جواب میں کہا کہ دراصل کچھ مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاحوں کا اتنی بڑی تعداد میں اسپین کا رُخ کرنا اُن کے لئے تکالیف کا باعث بنتا ہے، اُن کا موقف ہے کہ سیاحوں کے آنے سے مقامی مکانات کے کرائے بڑھ جاتے ہیں اور یہ سارا بوجھ مقامی افراد کو اُٹھانا پڑتا ہے، لیکن تمام ہسپانوی ایسی سوچ نہیں رکھتے۔میری بات سن کر ڈاکٹر صاحب مطمئن ہو کر اپنی فیملی کے ساتھ دو دن بعد بارسلونا پہنچ گئے۔ سب سے پہلے مہمانوں کو ہم دُنیا کی معروف شاہراہوں میں سے ایک ’’لا رامبلہ‘‘ پر لے کر گئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ چہل قدمی کر رہے تھے۔ایک دوسرے کے پاس سے گزرتے ہوئے مسکراہٹوں کا تبادلہ فرض سمجھ کر کیا جا رہا تھا، دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے، بڑے، بوڑھے اور خواتین ہر لمحے کو اپنے پاس محفوظ کرنے کے لئے کہیں سیلفیاں بنا رہے تھے تو کہیں ایک دوسرے کی تصاویر اتاری جا رہی تھیں۔ اتنی رونق دیکھ کر ہمارے مہمانوں کی آنکھوں میں حیرانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔مہمانوں نے مجھے کہا کہ ہم نے اس سے پہلے کہیں بھی اتنا منظم ہجوم نہیں دیکھا، کسی کی نظر نہ لگ جائے اس پر رونق جگہ کو،میں نے جواب دینے کی بجائے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور ہم سب وہاں سے چل پڑے۔ڈاکٹر صاحب6دن بارسلونا میں رہنے کے بعد واپس چلے گئے۔ان کے جانے کے پانچ دن بعد اُسی شاہراہ’’لا رامبلہ‘‘ پر دہشت گردوں نے سیاحوں پر’’وین‘‘ چڑھا کر 14افراد کو ہلاک اور سو کے قریب زخمی کر دئیے،میں دہشت گردی کے اس واقعہ کے دس منٹ بعد جائے وقوعہ پر پہنچا تو ایمبولینسنز اور پولیس کی گاڑیاں زخمیوں کواسپتالوں میں لے جا رہی تھیں، ہر طرف چیخوں کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔لا رامبلہ کی رونق کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔تین دہشت گرد اپنی سفاکانہ کارروائی کرکے فرار ہو چکے تھے۔اس موقع پر مقامی اور پاکستانی کمیونٹی سمیت اسپین میں مقیم دوسرے ممالک کے تارکین وطن خون کے عطیات دینے کے لئے اسپتالوں میں پہنچ چکے تھے۔بارسلونا کے ٹیکسی سیکٹرکے پاکستانی نوجوانوں نے تمام دِن اپنی ٹیکسیوں کے ذریعے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے عزیز و اقارب کو مفت سروسزمہیا کی تھیں۔ مقامی سرکاری ادارے پاکستانیوں سمیت دوسرے تارکین وطن کے اس عمل کو سراہ رہے تھے۔ بارسلونا میں جشن آزادی پاکستان کے پروگرامز کے انعقاد کی گہما گہمی تھی، دہشت گردی کے واقعہ کے دو دن بعد 19اگست کو پاک کاتالان فیڈریشن اسپین کے زیر اہتمام جشن آزادی کا رنگا رنگ پروگرام منعقد ہونا تھا، جبکہ 20اگست کو شیر پاکستان کبڈی کلب کے زیر اہتمام آل یورپ کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد تھا لیکن سانحہ بارسلونا کی وجہ سے یہ پروگرامز منسوخ کر دیئے گئے اور جن مقامات پر پروگرامز ترتیب دیئے جانے تھے وہاں شمعیں روشن کرکے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے دہشت گردی کو دور حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لئے تمام مذاہب کو اکھٹے ہو کر آگے بڑھنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے پر زور دیا۔ پاکستانی کمیونٹی کے مقررین کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیں گے، ہم بھی اِس اظہارِ یکجہتی مظاہرے میں شامل تھے، بہت افسوس ہوا جب پتا چلا کہ ایک مظاہرہ یہاں ہو رہا ہے اور پاکستانی کمیونٹی دوسرا مظاہرہ ساتھ والی گلی میں کر رہی ہے، افسوس ہوا اس بات پر کہ جب پاکستانی کمیونٹی دیار غیر میں مقامی کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ہمدردی کرنے کے لئے اکھٹی نہیں ہو سکی تو کیسے ممکن ہوگا کہ سب مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکیں، کیا یہ سب کھوکھلے نعرے تھے؟ کیا بارسلونا میں بسنے والے پاکستانی اپنے کاروبار اور خود کو تعصب کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے یہ مظاہرے کر رہے تھے؟ پھر 21اگست کو ایک اور مظاہرہ ہوا جس میں پھر سے کچھ پاکستانی بھی شامل ہوئے اور وہاں بھی کہا گیا کہ ہم سب مل کردہشت گردی کے خلاف آگے بڑھیں گے، چاہئے تو یہ تھا کہ ساری پاکستانی کمیونٹی اکھٹے ہو کر اس سانحے کے خلاف مظاہرہ کرتی، بے شک مظاہرے میں پاکستانی کی سماجی اور سیاسی جماعتیں اپنا اپنا جھنڈا لے کر نکلتیں لیکن مظاہرے کو دیکھ کر دُنیا کو پتا چلنا چاہئے تھاکہ یہ پاکستانیوں کا مظاہرہ ہے اُن پاکستانیوں کا جو اپنے وطن میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں میں اپنا بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ پتا چلنا چاہئے تھا کہ ایک مدت سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے جرأت مند پاکستانی اس مظاہرے میں شریک ہیں، صرف جرأت مند پاکستانی۔

تازہ ترین