• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لئے ٹیکس وصولی ناگزیر ہے مگر عوام پر ضرورت سے زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا بھی مناسب عمل نہیں ہے۔ حکومت نے بجلی صارفین پر مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی بھرمار کی ہوئی ہے۔ نیلم جہلم سرچارج کی مد میں پچھلے پانچ سال سے عوام سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے مگر ابھی تک اِس منصوبے کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی۔ اسی طرح ڈیٹ سروسنگ سرچارج کی مد میں بھی گزشتہ تین سال میں بجلی صارفین سے 65ارب سے زائد وصول کئے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کی مد میں ڈیڑھ سو ارب سے زائد کے بقایا جات ہیں۔ کئی علاقوں میں لوگ ٹیوب ویلوں کے کنکشن پر شادی ہال اور ہوٹل چلا رہے ہیں۔ بدھ کے روز سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت عابد شیر علی نے بتایا کہ اکتوبر 2014ء سے لائف لائن صارفین کی بجائے دیگر بجلی صارفین پر ڈیٹ سروسنگ سرچارج عائد کیا گیا تھا۔ مالی سال 2014-15تا 2016-17کے دوران 6.65بلین روپے اس مد میں وصول کئے جا چکے ہیں۔ دکاندار حضرات سے سیلز ٹیکس الگ سے وصول کیا جاتا ہے اور بجلی کے بلوں کی مد میں اُنہیں الگ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی اِس بھرمار کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ ایک روپے 70پیسے کمی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ کمی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دی گئی ہے۔ نرخوں میں کمی کا اطلاق 300یونٹ تک استعمال کرنے والے زرعی اور کے الیکٹرک کے صارفین پر نہیں ہو گا۔ بجلی کی بروقت پیدوار اور لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے وزارت آبی وسائل اور بجلی ڈویژن کے درمیان اداروں کی تقسیم کیلئے رولز آف بزنس میں ترمیم کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق واپڈا اور ارسا وزارت آبی وسائل جبکہ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان لمیٹڈ پاکستان، پرائیویٹ انفراسٹرکچر بورڈ اور متبادل توانائی بورڈ بجلی ڈویژن کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ لوڈشیڈنگ میں کمی کیساتھ ساتھ صارفین کو بجلی بلوں میں ناجائز ٹیکسوں میں بھی ریلیف دیا جائے گا۔

تازہ ترین