روزمرہ اشیائے ضروریہ کی صارفین کو بلاتعطل فراہمی اور قیمتوں میں استحکام حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے لیکن ناجائز منافع خور مافیا ہر وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے جو راتوں رات مارکیٹ سے چیزیں غائب کر کے کئی گناہ زیادہ منافع کما لیتا ہے یہ صورت ان دنوں چینی کے معاملے میں بھی درپیش ہے اس کی خوردہ قیمت مارکیٹ میں 55روپے فی کلو گرام سے بڑھ کر اچانک 65روپے تک پہنچ گئی ہے۔ دکانداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں اس کی قیمتیں مزید اوپر جائیں گی۔ حکومت کے نوٹس لینے کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار میں متعلقہ حکام نے بتایا کہ شوگر ملز مالکان چینی کی اضافی برآمد بڑھانے کیلئے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں جبکہ حکومت پہلے ہی سات لاکھ 25ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے چکی ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے حکام کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے ہمیں چینی کی اوپن مارکیٹ میں ریلیز کا ڈیٹا دینے سے انکار کیا ہے۔ کمیٹی نے اگرچہ صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ مسابقتی کمیشن کو بھیجا ہے اور اس سے تحقیقات کر کے چھ ہفتے میں رپورٹ مانگی ہے تاہم یہ کام کم سے کم وقت میں ہونا ضروری ہے کیونکہ منافع خور مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں وہ حالات کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ چینی کا استعمال صرف گھروں میں روز مرہ استعمال تک محدود نہیں، مٹھائیوں سے لیکر کولڈ ڈرنکس، بیکری کے سامان اور ریستورانوں میں روزانہ اس کی کھپت ٹنوں کے حساب سے ہوتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ ٓائندہ کرشنگ سیزن میں چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے اس لئے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ ایوب دور میں چینی صرف آٹھ آنے فی سیر مہنگی ہو جانے پر ملک بھر میں شور مچ گیا تھا اور ایوب خان کے زوال کا یہ ایک بڑا سبب تھا لہٰذا صورت حال کو جس قدر جلد ہو سکے، معمول پر لایا جائے۔ شوگر ملز مالکان اور ہول سیل ڈیلرز سے بات چیت کر کے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔