• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ منگل کی صبح تھی اور میں ٹی وی پر امریکی صدر ٹرمپ کا افغانستان کے بارے میں پالیسی بیان سن رہا تھا۔ بیان کیا تھا، پاکستان کو ننگی دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور بھارت کے لب و رُخسار چومے جا رہے تھے۔ غالباً یہ بیان اُن کے وزیرِ دفاع جنرل جیمز میٹیز (James Mattis) اور مشیر برائے قومی سلامتی جنرل میک ماسٹر(McMaster)نے تیار کیا ہے جن کو صدر ٹرمپ نے افغانستان کا مسئلہ مستقل طور پر حل کرنے کے مکمل اختیارات سونپ دیے ہیں۔ میں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے صدر کا بیان سنتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ اس کا پاناما لیکس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اِدھر نوازشریف اقتدار سے محروم کیے گئے اور اُدھر امریکی صدر نے ہم پر کوڑے برسانے شروع کر دیے۔ وہ طعنہ دے رہے تھے کہ پاکستان اربوں ڈالر کھا گیا اور اُن عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جن سے ہم برسرِ پیکار ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ اس اللم غلم کو سننے کا کیا فائدہ جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم نے تو عالمی دہشت گردی کی اِس جنگ میں ستر ہزار شہریوں کی قربانی دی ہے جن میں دس ہزار سے زائد کا تعلق فوج، سول آرمڈ فورسز اور پولیس سے تھا اور ان میں وہ پھول سے سینکڑوں بچے اور فرض شناس خواتین بھی شامل تھیں جو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ میں ٹی وی سوئچ آف کرنے ہی والا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ امریکہ سے ہمارے تاریخی رشتے چلے آ رہے ہیں اور اس نے ہمارے پہلے یومِ آزادی کی تقریب میں شرکت کے لیے سب سے بڑا وفد بھیجا تھا اور برطانیہ کو برصغیر کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے لیے ایک آزاد وطن چاہتے ہیں۔
مجھے صدر ٹرمپ کے اس بیان پر بڑی حیرانی ہوئی کہ وہ دور افتادہ علاقے میں قیامِ جمہوریت کے ہدف سے دستبردار ہو رہے ہیں اور اب جنگ صرف مجرموں، عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے لڑی جائے گی اور آپریشن کا تمام تر اختیار فیلڈ کمانڈر کو حاصل ہو گا۔ وہ جہاں مناسب سمجھیں گے، فوجی آپریشن کر سکیں گے اور دشمن کو نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ مجھے اس خیال سے وحشت ہونے لگی کہ فیلڈ کمانڈر تو پاکستان کے کسی علاقے میں بھی کارروائی کا حکم دے سکیں گے اور اپنا رعب جمانے کے لیے بربریت کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ امریکیوں نے کچھ عرصہ پہلے افغانستان میں بموں کی ماں یعنی انتہائی خطرناک بم کا تجربہ کیا تھا جس کا غالباً بڑا مقصد چین، روس، ایران اور پاکستان کو خوف زدہ کرنا تھا۔ میں نے سخت جھنجھلاہٹ کی حالت میں رونگٹے کھڑے کر دینے والے تصور کو ذہن سے جھٹک دیا۔ مجھے اس وقت اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا جب میں نے یہ سنا کہ افغانستان میں مزید فوج بھیجی جائے گی۔ صدارتی اُمیدوار کی حیثیت سے مسٹر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے مکمل انخلا کو یقینی بنایا جائے گا۔ کیا امریکہ میں بھی عوام سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں اور انتخاب جیتنے کے بعد ایک یکسر متضاد پالیسی اختیار کر لی جاتی ہے، میرے ذہن میں یہ سوال کلبلانے لگا۔ میں اس سوچ میں غلطاں تھا کہ میں نے سنا کہ اگر پاکستان افغان طالبان کو پوری طرح شکست دینے اور اُنہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہا، تو اسے بہت کچھ بھگتنا پڑے گا۔ میں امریکی صدر کی منطق پر دیر تک سوچتا رہا کہ ایک باشعور شخص ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔ مجھے یوں لگا کہ ٹرمپ صاحب دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ تب میں نے ہڑبڑا کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی صاحب میرے ضمیر کی آواز تو نہیں سن رہے۔
ایک ہی بیان میں اس قدر عجائبات پہلے بہت کم دیکھنے میں آئے۔ ان کا ارشاد تھا کہ پاکستان اربوں ڈالر ہم سے لے چکا ہے اور حقانی نیٹ ورک اسی طرح قائم ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو اسپورٹ فراہم کرنے پر اُٹھنے والے اخراجات وصول کیے جن میں سے پانچ سو ملین ڈالر امریکہ نے روک رکھے ہیں جبکہ کولیشن فنڈز کی فراہمی بند کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ پاکستان نے سولہ سال تک افغانستان میں قیامِ امن کے لیے قربانیاں دی ہیں اور ڈالروں کی خاطر دوسروں کی جنگ نہیں لڑی، بلکہ اپنی بقا اور خِطّے کی سلامتی کی جنگ لڑی ہے۔ افغانستان کے امن پر پاکستان کے امن اور سلامتی کا دارومدار ہے۔ سب سے زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہوئی کہ پہلی دفعہ اس پالیسی کا اعلان ہوا ہے کہ افغانستان میں قدرتی وسائل جن کا تخمینہ کھربوں ڈالر لگایا گیا ہے، انہیں امریکہ بروئے کار لائے گا اور سولہ برسوں میں افغانستان پر جو کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، وہ قدرتی وسائل سے پورے کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان میں امریکہ مستقل طور پر موجود رہ کر خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کا منصوبہ تیار کر چکا ہے۔
مجھے اس بات پر کچھ تعجب نہیں ہوا کہ امریکی صدر نے بھارت کو اس قدر کیوں اہمیت دی ہے۔ وہ دونوں اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے مدِ مقابل کھڑا کرنا اور اسے خِطّے میں ایک بالادست طاقت بنا دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسے ایٹمی اسپلائر گروپ کا رکن بنانے کے جتن ہو رہے ہیں جسے چین ہر بار ویٹو کر دیتا ہے جو دنیا میں ایک اُبھرتی ہوئی معاشی قوت ہے۔ اب وہ گوادر کے راستے براعظم افریقہ اور یورپ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سی پیک تعمیر کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اس کی تعمیر سے حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے اور طاقت کا توازن چین، روس، پاکستان اور ایران کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ ایسے میں افغانستان میں امریکہ کا مستقل قیام اس کے لیے زنجیر پا ثابت ہو گا۔
میں انہی خیالات میں غلطاں تھا کہ امریکی صدر کے خلاف سب سے پہلے چین کا ردِعمل سامنے آیا جو جی شاد کر گیا۔ اسی دوران جناب آصف زرداری، جناب عمران خاں اور دوسرے سیاسی اکابرین کے بیانات بھی نشر ہوئے جن میں بڑی حد تک اتفاقِ رائے پایا گیا، کیونکہ امریکی صدر نے پوری قوم کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔ اس سے ایک روز پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہم امریکی صدر کے افغانستان کے بارے میں پالیسی بیان کا اپنے عظیم تر قومی مفادات کی روشنی میں جائزہ لیں گے اور مشاورت سے حکمت ِعملی طے کریں گے۔ اس میں یہ مژدہ بھی سنایا گیا کہ سول اور فوجی قیادتیں ایک صفحے پر ہیں۔ فوج ریاست کا ایک حصہ ہے جو گرینڈ ڈائیلاگ میں ضرور شامل ہو گی۔ ترجمان دفتر خارجہ جناب نفیس زکریا نے امریکی صدر کے بیان کو مایوس کن قرار دیا ہے کہ اس میں پاکستان کی قربانیاں نظر انداز کر دی گئی ہیں اور بھارت کو افغانستان میں ایک اہم رول دے دیا گیا ہے جو خطے میں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان عالمی دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا تعاون جاری رکھے گا اور قیامِ امن میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر سے باوقار انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ سے مالی امداد نہیں فقط اعتماد چاہتے ہیں اور امن کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ اربابِ فکرونظر کی رائے میں سخت جواب دینے کے بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں امریکی عوام اور کانگریس کو احساس دلایا جائے کہ پاکستان امریکہ کے تعاون سے افغانستان میں قیامِ امن اور اس کی تعمیرو ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ بھارت ایک غیر فطری عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی خبر سنتے ہی ہمارے آرمی چیف نے جناب نوازشریف کے ساتھ فون پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے جبکہ عمران خاں نے بھی ٹویٹر پر پیغام بھیجا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ داخلی اور خارجی عوامل ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا رہے اور گھر کو درست رکھنے کا احساس دلا رہے ہیں۔

تازہ ترین