• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے، ملک کو مستحکم رکھنے کی۔ سیاستدانوں کی اولین، اور جو حکومت میں ہیں، ان کی سب سے زیادہ۔ جو دوسرے ادارے اور اسٹیک ہولڈر زہیں ان کا بھی فرض ہے کہ ملک میں استحکام برقرار رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہ سکتی، نہیں رکھی جاسکتی، کہ صرف استحکام رہے۔ بات دور تلک جائے، وہاں تک جہاں نہ صرف آج بلکہ آنے والے کل اور اس کے بعد مستقبل قریب اور بعیدمیں بھی معاملات درست سمت میں چلتے رہیں۔
کیا یہ ممکن ہے؟ ناممکن کچھ بھی نہیں۔ صرف یہ کہ آپ کو صحیح راہ کا تعین کرنا ہوگا۔ یہ کیسے متعین ہو کہ صحیح سمت کونسی ہے؟ دنیا میں اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور اللہ جل شانہٗ نے اپنی کتاب میں صدیوں پہلے اس راستے کی نشاندہی کردی ہے، آپس میں مشورہ کرو۔ اس مشاورت کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے، اور اس پر بات ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات ملک کی تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ باہمی عدم اعتماد ان میں سے ایک ہے۔ بلا وجہ نہیں۔ ایک طرف یوں ہے کہ اٹھارہ وزرائے اعظم میں سے کسی کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ دوسری طرف اگر حساب لگائیں تو فوجی آمر منتخب اداروں کو چار بار ہٹا کر ستّر میں سے پینتیس برس حکومت کرتے رہے۔ اس افسوسناک تاریخی پسِ منظر کی وجہ سے ہی با شعور اور سمجھدار طبقات کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر مشاورت نہیں ہوئی، مکالمہ نہیں ہوا، وسیع تر سطح پر بات چیت نہیں ہوئی تو آنے والی راہ بہت کٹھن ہوگی۔ اس کے اپنے لوگوں کے بوئے ہوئے کانٹوں پر قوم کب تک چلے گی؟ ان کانٹوں کو چننا پڑے گا، اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی نہ صرف نوید بلکہ ایک ہموار اور بے خطر راستہ بھی فراہم کرنا ہوگا۔ یہ ذمہ داری آج کی قیادت پر ہے۔ اس میں سب شامل ہیں، وہ بھی جن کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی جنہیں عرف عام میں مقدس گائے کا لقب دیا جاتا ہے۔
گفتگو اور بات چیت، یا ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز کی اہمیت، آس پاس ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔ امریکہ نے اپنے خطرناک اور مذموم عزائم کا تقریباً اظہار کر دیا ہے۔ پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے جن مشکلات کا شکار ہے اس میں امریکہ کے ساتھ ہماری اُس وقت کی قیادت کا بھی ہاتھ ہے۔ امریکہ کبھی بھی قابل اعتبار دوست نہیں رہا۔ افغانستان میں امریکی جنگ کے لئے پاکستان کا کندھا استعمال ہوا۔ وہاں سے سوویت یونین کی واپسی کے بعد امریکہ اس سارے مسئلہ سے ہاتھ جھاڑ کر ساری ذمہ داری پاکستان پر چھوڑ کر چپکے سے واپس چلا گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا، اس کا پاکستان پر جو اثر پڑا اُس کا علم ساری دنیا کو ہے۔ امریکہ بھی جانتا ہے، ہمارے ہزاروں لوگ مارےگئے، اس ملک کی معیشت بری طرح متاثّر ہوئی۔ اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں اور ان پر اس ملک کے وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ افغان جنگ اور امریکی پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی کی جو خوفناک لہر اس خطہ میں در آئی اس کے اثرات بھی اس ملک پر پڑ رہے ہیں۔ آج جن پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کل ان میں سے بہت سے جنگجو امریکہ کے چہیتے تھے، آج وہ اس کے دشمن ہیں۔ اُسامہ بن لادن پر پہلے حملے کے وقت، امریکی ٹی وی، سی این این نے ایک وڈیو کلپ دکھایا اور کہا : ’’کل کا ہیرو آج کا ولن۔‘‘ یہ اُسامہ تھے، ان کے گلے میں گولیوں کا بیلٹ تھا اور ہاتھ میں کلاشنکوف۔ یہی معاملہ دوسروں کے ساتھ کیا گیا۔ کل امریکہ ان کی مدد کرنے کے لئے پاکستان پر دبائو ڈال رہا تھا۔ مجاہدین میں اسلحہ اور ڈالر تقسیم کرنے کے لئے پاکستان کو استعمال کررہا تھا۔ پھر امریکہ یہاں سے نکل بھاگا، اور جب اس کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے رد عمل ہوا، تو انتقامی کارروائیوں کے لئے وہ پھر واپس آگیا، ایک بار پھر پاکستان پر دبائو ڈالا گیا، ’’ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں؟‘‘ امریکہ نے کہا تھا۔ مشرف نے ہتھیار ڈال دئیے۔ ورنہ، اُس آمر کے بقول، امریکہ ہمیں پتھر کے دور میں دھکیل دیتا۔ اُس نام نہاد کمانڈو کا بس اتنا ہی حوصلہ تھا۔ اُس وقت سے پاکستان ایک عذاب کا شکار ہے۔ ایک طرف تو اسے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اب تک معصوم بچوں سمیت،ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف اس ملک کی قربانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اس پرہرطرح کا دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ اور دھمکیاں دیتے ہوئے ان کوششوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جو پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کررہا ہے۔ اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا کہ ایک بار پھر ہماری سرزمین استعمال ہورہی ہے، ہماری سرزمین پر امریکہ ڈرون حملے کرتا ہے، جو اس ملک کی خود مختاری پر حملہ ہے۔ کیا امریکہ اپنی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کو فوجی کارروائی کی اجازت دے گا؟ اس کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے بہت سے وسائل بھی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں خرچ ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو درپیش مسائل اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہیں۔ پہلے اسے صرف مشرقی سرحد کی حفاظت کرنی پڑتی تھی۔ بھارت ازل سے دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اب بھی اس کی جارحیت برقرار ہے۔ اب مغربی سرحد پر بھی دو ڈھائی لاکھ فوج تعینات کرنی پڑی ہے۔ اس پر ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ ایک تو اسے ملک میں موجود دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے لئے اپنے وسائل استعمال کرنے پڑے، جس میں اس کے بہت سے جوان شہید بھی ہوئے۔ ادھر اسے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو روکنے کے لئے بھی اپنا زورِ بازو استعمال کرنا پڑتا ہے۔
یوں پاکستان ہر طرف سے دبائو میں ہے۔ ایسے میں اس ملک کے سیاستدانوں، دانشوروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری کیا ہونی چاہئے؟ کیا یہ کوئی ملین ڈالر سوال ہے؟ یہ تو سامنے کی بات ہے، ملک کو اندرونی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی دبائو کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے آپس میں مذاکرات ہونے چاہئیں۔ سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربّانی نے بالکل درست سمت میں اشارہ کیا ہے۔ اس بات کو اتنی ہی سنجیدگی سے لینا چاہئے جتنی سنجیدگی سے یہ کہی گئی ہے۔ رضا ربّانی ایک معتبر فرد ہیں۔ ان کی جماعت میں کم ہی لوگ ہیں جن کی دیانت شبہ سے بالاتر ہو۔ اور وہ ایک غور و فکر کرنے والے آدمی بھی ہیں۔ ان کی بات کو آگے بڑھایا جائے۔ اس پر عمل کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ اب تو فوج کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ فوج گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ ہوگی۔ یہ بہت ضروری ہے اور خوش آئند بھی۔ یہ ڈائیلاگ جتنی جلد ہوجائیں اچھا ہے۔ اسکے لئے عمرانی معاہدے جیسی مشکل اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے کوئی حرج بھی نہیں۔ اس پر بات چیت کی جائے۔ آسان الفاظ میںیہ کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے، ملک میں کئی دہائیوں سے جاری اکھاڑ پچھاڑ کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت چلانے اور اس کے مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرنے کیلئے ایک موثر نظام تشکیل دینا ہوگا۔ ایسا نظام جو سب کیلئے قابل قبول ہو، جس میں تمام ادارے آئین کے مطابق اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکیں، کرتے رہیں۔ کسی کو کسی پر برتری حاصل نہ ہو، کوئی کسی پر اپنی برتری نہ جتائے ۔
آئین اور قانون کی بالادستی ہو، اور قانون سب کے لئے یکساں ہو۔یہی اچھی حکمرانی ہے اور یہی عدل، جس کا تقاضا پاکستان اپنے لوگوں سے کرتا رہا ہے، اور کررہا ہے۔ یہ احتیاط کہ کوئی بھی آئین سے روگردانی نہ کرسکے اس نئے بندوبست کا لازمی حصہ ہو۔ اسی میں اِس ملک کی بقا ہے اور اِس کے عوام کی فلاح۔

تازہ ترین