• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب سے 70برس قبل آزادی کے وقت جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے ان میں انفرا سٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا۔ نوزائیدہ مملکت کے پاس مالی وسائل کم اور مسائل کی بھرمار تھی۔ گزشتہ 7دہائیوں میں بہرحال پاکستان نے متعدد شعبوں میں قابل قدر ترقی کی ہے مثلاً (1) مالی سال 1950 میں پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 10ارب روپے تھی جو بڑھ کر 31862ارب روپے تک پہنچ گئی ۔ اسی مدت میں فی کس آمدنی 285 روپے سے بڑھ کر 170508 روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔
(2) یکم جولائی 1948کو پاکستان میں بینکوں کے مجموعی ڈپازٹس ایک ارب روپے سے کچھ ہی زائد تھے جو بڑھ کر اب تقریباً 11600 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ابتدائی برسوں میں ان بینکوں کا ٹیکس سے قبل مجموعی منافع نہ ہونے کے برابر تھا جو 2016 میں 314ارب روپے ہو گیا تھا۔
(3) مئی 1998 میں پاکستان نے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ (پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں لیکن اب ان کی خدمات سے استفادہ نہیں کیا جا رہا)۔
یہ کامیابیاں اپنی جگہ مگر مندرجہ ذیل حقائق قابل رشک نہیں ہیں۔ (1) 1947 میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہم یہ حیثیت کھو چکے ہیں۔ (2) آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے لیکن پاکستان دنیا کی چھٹی نہیں 41 ویں بڑی معیشت ہے۔ (3) مالی سال 1980 میں پاکستان پر قرضوں کا مجموعی حجم تقریباً 155ارب روپے تھا۔ مارچ 2017 تک ان قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 23952 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً چشم کشا ہیں۔ (1) 1980 سے 2017 کے 37 برسوں میں پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو جنوبی ایشیا کے بہت سے ممالک بشمول بنگلہ دیش سے کم رہی۔ اس کی وجوہات میں وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی استحصالی معاشی و مالیاتی پالیسیاں، بار بار آمروںکی مداخلت، سستے اور جلد انصاف کی عدم فراہمی، اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز، مالیاتی و انٹلیکچوئل بدعنوانی، موثر احتساب کے نظام کا فقدان اور اقتدار حاصل کرنے، برقرار رکھنے اور اسے طول دینے کیلئے امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑنا شامل ہیں۔
آئین میں 18ویں ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کا مقصد صوبوں کو مضبوط بنانا تھا کیونکہ اگر صوبے مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ ان فیصلوں کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں کو متعدد اقدامات اٹھانا تھے لیکن ان اقدامات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے چنانچہ وفاق اور چاروں صوبوں نے عملاً گٹھ جوڑ کرکے یہ اقدامات اٹھانے کے بجائے استحصالی پالیسیاں اپنائیں۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کی کم وصولی ہو رہی ہے۔ چاروں صوبے جہاں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومت ہے زرعی اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور سے ٹیکس کے دائرے میں تو کیا لاتے وہ جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں پر لانے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کیونکہ جائیداد سیکٹر لوٹی ہوئی دولت کو محفوظ جنت فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے پانامالیکس کو اوڑھنا بچھونا بنالیا گیا ہے مگر ملکی پاناماز پر کوئی بھی ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہے حالانکہ اس مد میں چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب کی وصولی ممکن ہے۔ اسی طرح انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کی منسوخی سے تین ہزار ارب روپے سالانہ کی اضافی رقم قومی خزانے میں آ سکتی ہے۔ ٹیکسوں کی چوری کے نقصانات پورا کرنے کیلئے چاروں صوبوں نے تعلیم کی مد میں قومی تعلیمی پالیسی 2009 سے انحراف کرتے ہوئے صرف گزشتہ تین برسوں میں چار ہزار ارب روپے کم مختص کئے گئے ہیں مگر شق 111(4) کو منسوخ کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔
اسٹیٹ بینک اور پاکستان میں کام کرنے والے بینک مسلسل بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کی متعدد شقوں مثلاً 26۔ اے (4)، 40 (اے) 41 اور آئین کی شقوں3، 38 (ای) اور 227سے انحراف کر رہے ہیں۔ بینکوں نے گزشتہ 15برسوں میں کروڑوں کھاتے داروں کو منافع کی مد میں تقریباً 1450 ارب روپے کم دیئے ہیں۔ ان غلط کاریوں میں تینوں صوبائی بینکوں کا بھی برابر کا کردار ہے۔
وطن عزیز میں آج کل ووٹ کی حرمت کی پامالی کا بڑا چرچا ہو رہا ہے لیکن ووٹ تو اصولی طور پر سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور کو دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وفاق اور صوبوں میں برسر اقتدار تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور اور وعدوں کے اہم نکات سے 90فیصد انحراف کیا ہے۔ یہی نہیں آئین کی متعدد شقوں سے ریاست کے تمام ستون بھی تسلسل سے انحراف کرتے رہے ہیں۔ آئین کی شق3 استحصالی کا خاتمہ، 25(اے) بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم، 37(ڈی) سستے اور جلد انصاف کی فراہمی، 38(ڈی) معذور، ضعیف اور بیمار اشخاص کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی اور 38(ای) غریب اور امیر کے فرق کو کم کرنے کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتی ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہو رہا۔
آئین پاکستان کی شق 38 (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ربٰو کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے۔ یہ خاتمہ تو کیا ہوتا پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے گزشتہ 26 برسوں میں یہ حتمی فیصلہ ہی نہیں دیا کہ سود ہر شکل میں مکمل طور پر حرام ہے یا نہیں۔ بینکوں کے قرضوں کی معافی کا مقدمہ بھی گزشتہ 10برسوں سے سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔ ہمارے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کی تحقیق کے مطابق پچھلی چند دہائیوں سے پاکستان میں جو پالیسیاں اپنائی گئی ہیں ان کے نتیجے میں اس صدی کے آخر تک بھی پاکستانی معیشت سے سود کا خاتمہ ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔
اسلامی بینکاری کا موجودہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ بھی اس نظام کو اسلامی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ مگر اس نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ کچھ اسلامی بینکوں کے شریعہ بورڈز یہ سرٹیفکیٹ دینے کیلئے آمادہ نہیں ہیں کہ اسلامی بینکوں نے کھاتے داروں کو منافع دینے کیلئے جو فارمولا اپنایا ہے وہ شریعت سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسلامی بینکوں نے کاروبار کرنے کیلئے جو طریقے اپنائے ہیں ان سے نہ تو اسلامی نظام بینکاری کی کوئی معاشی خرابی دور ہوئی ہے اور نہ ہی اسلامی نظام بینکاری سے معاشرے، معیشت اور فرد کو جو ثمرات ملنے کی توقع تھی ان میں سے کوئی ایک بھی حاصل ہو رہا ہے جو قابل احترام علماء مروجہ اسلامی نظام بینکاری کی پشت پر ہیں وہ بھی دبے لفظوں میں تسلیم کر چکے ہیں کہ اس مروجہ نظام کو اسلامی نظام بینکاری کہا ہی نہیں جا سکتا۔
اگر مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں معیشت کی بہتری کیلئے فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے اور اقتصادی دہشت گردی پر ممکنہ حد تک قابو پانے کیلئے اقدامات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ نہ بنایا گیا تو معیشت میں پائیدار بہتری لانے، دہشت گردی کی جنگ جیتنے اور سی پیک کو گیم چینجر بنانے کی توقعات پوری نہ ہو سکیں گی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے 21اگست کو پاکستان کیلئے جو دھمکی آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں وہ ’’نیوگریٹ گیم‘‘ کے امریکی عزائم کو ایک مرتبہ پھر واضح کرتے ہیں۔

تازہ ترین