• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کیا ہے؟ نہیں آتا سمجھ میں۔ ایک جانب حکم ہوا کہ ہر گھر میں صرف ایک بچہ پیدا کیا جائے۔ لڑکی پیدا ہوئی تو اسے کپڑے میں لپیٹ کر کسی گلی میں ڈال آئے۔ نتیجہ وہی ہو ا جو ہونا تھا۔ چین میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوگئی۔ عورتیں کم ہوگئیں۔ اب بیاہنے کے لئے دلہنیں دستیاب نہیں۔ دوسری جانب یہ ہو ا کہ مرد کم اور عورتیں زیادہ ہو گئیں۔ نتیجہ سنئے۔بھارت میں عورتیں اتنی زیادہ ماری ماری پھر رہی ہیں کہ مرد کئی کئی نکاح کررہے ہیںاور پھر بھی نیت سیر نہیں ہوتی۔ نہ جانے کون سی کتاب کے کون سے ورق پر لکھا ہے کہ منہ پھوڑ کر تین بار کہہ دو ’طلاق طلاق طلاق۔‘ چلئے چھٹّی ہوئی۔ وہ جس نے،طاقوں بھری گڑیاں چھوڑیں اور چھوڑا سہیلیوں کا ساتھ،اور جو دکھ کے آنسو اپنی ہتھیلیوں میں جذب کرتی بابل کے گھر سے نکلی تھی، اس کی گرد ن پکڑ کر کچھ اس طرح گھر سے نکالاگیا ہے کہ آج پھوٹی ہوئی تقدیر پرآٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہوئی باہر گلی میں کھڑی سوچ رہی ہے کہ اب کہاں جائے ۔اوپر سے اَڑے ہوئے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں، عورت پر ہمارا یہی بڑا احسان ہے کہ آٹھ دس برس اس کو اپنے گھر میں ڈالا، بچّے پید ا کئے، خدمتیں لیں ۔اس کے بعد وہ حشر کیا جو پھٹے ہوئے پرانے جوتے کے ساتھ کیا جاتا ہے، ادھڑے ہوئے سوئٹر کے ساتھ کیا جاتا ہے اور سوراخوں والی بنیائن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ عورت کو طلاق یوں دیتے ہیں اور خم ٹھونک کر دیتے ہیں جیسے دودھ میں گرنے والی مکھی کو نکال کر پھینکا جاتا ہے۔ اوپر سے اُن حضرات کی فوج شوہر کی طرف دار ہوجاتی ہے جنہوں نے کسی نصاب کا رٹّا لگا کر کوئی سند حاصل کر کے لوگوں کی تقدیروں کے فیصلے کرنے کی ذمہ داری خود ہی اپنے اوپر لے لی ہو۔
ہم ہمیشہ یہ سنتے آئے ہیں کہ قدرت نے جس سب سے قبیح کام کی اجازت دی ہے وہ طلاق ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ طلاق دینا ایک قبیح حرکت ہے جسے میں نا پسند کرتا ہوں۔ ان کا یہ اصرار بھی تھا کہ طلاق بہت سنجیدہ عمل ہے، اس میں ہنسی مذاق یا غیر سنجیدہ پن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ آج کل کے جدید ٹیلی فون پر بیوی کو پیغام بھیج دیتے ہیں کہ’جا، میں نے تجھے تین طلاقیں دیں‘۔اسے طلاق نہیں، کھلواڑ کہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد سنجیدہ اور گمبھیر عمل ہے جس سے معاشرے کی اکائی، یعنی بنیادی رکن گویا خاندان کی شکل بگڑتی ہے جس سے ہزار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اب سنئے ہوا کیا ہے۔ بھارت کی سب سے اونچی عدالت نے حالات کی ستائی ہوئی خواتین کے دکھ بھرے قصے سننے کے بعد ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دینے کو خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔ اس کا جواز سیدھا سادہ ہے۔ قانون کے بارے میں طے ہے کہ اس کا عقل پر پورا اترنا لازمی ہے۔ اب کوئی ذی شعور سنجیدگی سے غور کرے تو عورت کو یوں گھر سے نکال باہر کرنے کی تُک سمجھ میں نہیں آتی۔ہم تو یہ جانتے ہیں کہ تین طلاقوں میں عورت کے تین مہینوں کے مخصوص مرحلے سے گزرنا ضروری ہے ۔ یہ مہلت سوچنے سمجھنے، غور کرنے اور بات چیت یا بڑوں کے مشورے کے لئے دی جاتی ہے ۔
بات چین سے چلی اور کہاں جا نکلی مگر بات کا عنوان ایک ہے۔ بھارت میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے اس کے بر عکس چین میں عورتیں کم پڑ گئی ہیں۔ بھارت میں تو قدرت نے اپنا کام دکھا یا مگر چین میں توازن کے اس طرح بگڑنے میں سراسر حضرت ِ انسان کا دخل ہے۔ وہاں سرکار نے حکم جاری کردیا کہ کسی شادی شدہ جوڑے کو ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔(بلکہ قدیم لکھائی میں:نہوگی)۔حکم عدولی کی سزا بہت کڑی تھی۔ لوگ دہل گئے۔ دوسرا بچہ پیدا ہوا تو رات کے اندھیرے میں اسے کہیں پھینک آئے اور اگر لڑکی ہوئی تو چاہے پہلی ہو چاہے دوسری، اس کی پوٹ بناکر کہیں چھوڑ آنا عام بات تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیاکی اتنی بڑی قوم کے گھروں میں ایک ایک بچہ رہ گیا۔ اس کا اثر بڑا بھیانک ہوا۔ اوّل تو اسے لاڈ پیار نے بگاڑا، دوسرے وہ کھا پی کر موٹا ہوگیا اور صحت کے مسائل سر اٹھانے لگے، تیسرا بڑا ستم یہ ہوا کہ گھر کا تنہا بچہ مل بانٹ کر کھانے کی رسم بھول گیا۔ پوری نسل خود غرض ہوگئی اوراپنی ذات سے آگے دیکھنے کی عادی نہ بن سکی۔ یہ مسئلہ آفاقی بن بیٹھا ۔ قومی کردار اس کی زد میں آگیا اور ڈیڑھ ارب کی قوم کو اپنی بھول کا احساس ہوا۔آخر وہ ایک بچہ پیدا کرنے کا حکم منسوخ ہوا اور اب ہر گھرانے میں دوتین بچے کھیلتے نظر آنے لگے لیکن اب دیر ہو گئی ہے۔
ملک میں عورتیں کم اور مرد زیادہ ہوگئے ہیں۔ کہنے کو یہ عام سی بات ہے مگر قدرت کے کاموں میں دخل کی یہ ایسی مثال ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ کو یاد ہوگاکہ کچھ عرصہ پہلے یورپ والے مینڈک کی ٹانگوں کا سوپ شوق سے پینے لگے تھے۔ اس پر مانگ بڑھی تو جنوب مشرقی علاقے کے بعض ملکوں میں لوگ مینڈکوں کو مار کر ان کی ٹانگیں برآمد کرنے لگے۔ اب جو موسم بدلا تو خوں خوار مچھر اس کثرت سے پیدا ہوئے کہ لوگوں کی زندگی عذاب ہو گئی۔ ان مچھروں کی افزائش سے پہلے ہی انہیں کھاجانے والے مینڈک نہ رہے تو منظر یہ تھا کہ دن ڈھلتے ہی مچھروں کی فوج لوگوں پر ٹوٹ پڑتی تھی او ر شاید کہتی جاتی تھی کہ اور مارو ہماری نسلوں کو۔ بالکل یہی چینی قوم کے ساتھ ہوا۔ قدرت کا توازن بگڑ گیا۔ بیویاں ڈھونڈنا مشکل اور گھر بسانا دشوار ہو ا جاتا ہے۔ایسے میں یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اب بھگتو اپنے کرتوتوں کی سزا۔

تازہ ترین