• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹررحمان ملک سابق وزیر داخلہ کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام کھلا خط

جناب صدر،
میں یہ خط آپ کی حالیہ اعلان کردہ نئی پاک افغان پالیسی کے جواب میں لکھ رہا ہوںجس کا مقصد آپ کی توجہ ٹھوس حقائق پر مبنی صورت حال کی جانب مرکوز کرانا ہے،وہ حقائق جن سے ا مریکی عوام کو بالعموم اور امریکی صدر کوبالخصوص آگاہ ہونا چاہیے ۔ جناب صدر، نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔میں اس واقعے سے جڑے بے شمار نظریات اورسامنے آنے والی بہت سی رپورٹس کا حوالہ نہیں دوں گا مگر یہ ایک ناقابل ِ تردیدحقیقت ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے اس واقعہ سے براہ راست متاثر ہوا۔تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس گھنائونے فعل میں ملوث انیس دہشت گردوں میں سے کسی ایک کا بھی تعلق پاکستان سے نہیں تھا۔اس کے رد َعمل میں امریکی صدر بش نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ،جن میں نائن الیون حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن بھی شامل تھا۔ اس مقصد کے لیے صدر جنرل پرویز مشرف سے مدد لینی چاہی جنہوں نے عالمی سطح پر امن کے قیام کی خاطر اس پر رضامندی ظاہر کردی۔ حکومت پاکستان نے امریکہ کو اپنی فضائی اور زمینی حدود ،دونوں استعمال کرنے کی اجازت دی۔اسی طرح ماضی میںامریکہ نے پاکستانی سرزمین کوافغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ میں استعمال کیاتھا ۔ اُس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی اے مسٹر ولیم کیسے (Mr. William Casey) اور ڈی جی آئی ایس آئی مسٹر اختر عبدالرحمان کی ملاقات ریکارڈ کا حصہ ہے ، اوریوں ہم نے امریکہ کی حمایت کرتے ہوئے اُس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان نے دونوں مواقع پر ایک اچھے اور پر خلوص اتحادی کی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دیا۔
دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ میں پاکستانی شمولیت کے نتیجے میں دہشت گرد(طالبان) پاکستان کے دشمن بن گئے کیونکہ پاکستان امریکہ کی مدد کررہا تھا، اور یوں اس جنگ کا رخ افغانستان سے پاکستان کی سرزمین کی طرف ہوگیا ۔ ہم نے مالا کنڈ، سوات اور فاٹا کو کھو دیا ۔ ان علاقوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔ تاریخ کے صفحات اس جنگ میں پاکستانیوں کی قربانی کی اٹل ، بے لاگ اور ناقابل ِ تردید گواہی دے رہے ہیں۔ اور یہ جنگ ہم پر صرف اس لیے مسلط کی گئی کیونکہ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دیتے ہوئے مزید فعالیت دکھانے کی کوشش کررہے تھے ۔ ہم افغان مہاجرین سمیت اٹھاون لاکھ پناہ گزینوں کی کفالت کررہے ہیں جو ہماری معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہے ۔ کیا یہ دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کرنے کے علاوہ افغانستان کی مدد نہیں ہے ؟ جناب صدر، یہ صرف پاکستان اور افغانستان ہیں جن کے درمیان کوئی عالمی سرحد نہیں ، اور روزانہ سات ہزار سے زائد افغان باشندے آزادانہ طور پر پاکستان میں آتے اور جاتے ہیں، لیکن افغانستان نے پاکستان کی اس بے مثال فراخدلی کو کبھی نہیں سراہا۔ اس کی بجائے اس نے ہمیشہ پاکستان پر الزامات لگائے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو زمینی اور فضائی حدود کے استعمال ، معلومات کے تبادلے اور پاک افغان بارڈر پر مشترکہ آپریشنز کرنے میں ہر ممکن مدد فراہم کی ۔ افغانستان کے سیاسی اورسیکیورٹی مسائل پر پاکستان بھی عالمی برادری کی تشویش میں برابر کا شریک ہے ۔ اس دوران پاکستان نے امریکہ سمیت عالمی برادری کو بار ہا یاددہانی کرائی ہے کہ اس نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود اس جنگ میں نہایت پر خلوص کردارادا کیا ہے ۔ اب اگر افغانستان میں صورت ِحال خراب ہورہی ہے اورامریکی اور افغان فوجی تنصیبات پر حملوںمیں اضافہ ہورہا ہے تو امریکی انتظامیہ کو چاہیے کہ اس جنگ میں اربوں ڈالر جھونکنے کے باوجود ناکامی کی وجوہ افغانستان کے اندر تلاش کرے نہ کہ پاکستان میں۔ اس میں کوئی شک نہیں، جناب صدر، آپ کے دعوے کے برعکس، یہ افغانستان ہے جو دہشت گردی کا گڑھ ہے ۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو افغان سرزمین سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ضرب ِ عضب شروع کرنے سے پہلے پاکستان نے افغانستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی سرحد بند کردے تاکہ دہشت گرد فرار ہو کر افغان سرزمین پر پناہ نہ لے سکیں ، لیکن بدقسمتی سے افغانستان نے تعاون نہ کیا۔ اب یہ دہشت گرد این ڈی ایس اور را(RAW) کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، اور یہ ایجنسیاں اُنہیں پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کے لیے مالی وسائل کے علاوہ عسکری ٹریننگ بھی فراہم کرتی ہیں۔
لہٰذا افغانستان میں اتحادی فورسز کی ناکامی پر پاکستان کو مورد ِ الزام ٹھہراناحقائق کے منافی ہے ۔ افغانستان میں دنیا کی 42 فیصد منشیات پیدا ہوتی ہیں اور ان کا زہریلا سفر یورپی ممالک کی طرف جاری رہتا ہے ۔ افغانستان قانون نافذ کرنے میں تمام تر معاونت کے باوجود منشیات کی پیداوار اور سپلائی روکنے میں ناکام ہوچکا ہے ۔ اس دوران ’’ڈومور ‘‘ کا امریکی بیانیہ بلاتکان جاری ہے ، حالانکہ پاکستان نے اپنی سکیورٹی اور علاقائی خودمختاری کو خطرے میں ڈال کر ہر ممکن طریقے سے دہشت گردوںکے خلاف جنگ کی ہے ۔ پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملے امریکہ کا یک طرفہ فیصلہ تھا، اور اس پر امریکی سفیر برائے پاکستان وافغانستان، مسٹر ہالبروک سے احتجاج بھی کیا جاتا رہا ۔ میں نے اُس وقت بھی تجویز پیش کی تھی کہ چونکہ ڈرون حملوں میں مقامی افراد بھی ہلاک ہوجاتے ہیں، تو اُن کے عزیز انتقاماً دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں، چنانچہ انہیں روک دیا جائے ، اوراس کی بجائے پاکستان اور امریکہ انتہا پسندوں کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائی کرنے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت ِ عملی وضع کریں۔ امریکہ نے اس پر کبھی اتفاق نہ کیا۔ پاکستان کے سابق وزیر ِ داخلہ کے طور پر میرا ان معاملات سے براہ ِراست واسطہ رہا ہے ، چنانچہ میں آپ کو پوری ذمہ داری کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے میں نے صدر بش، صدر باراک اوبامہ ، مس گونڈولیزا رائس اور مسٹر جان کیری کے سامنے کسی مشترکہ حکمت ِ عملی وضع کرنے کی بھرپور وکالت کی ۔ امریکہ کا اتحادی ہونے کے ناتے میں نے انسداد ِ دہشت گردی کے لیے ہمیشہ مشترکہ کاوش کی تجویز پیش کی ۔ میں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ، کالم لکھتے ہوئے اور دیگر بہت سے فورم پر بات کرتے ہوئے اس تجویز کو آگے بڑھایا، لیکن ماضی میں میری اس تجویز پر کوئی توجہ نہ دی گئی ۔ میں پاکستان کے ایک سرکردہ انگریزی اخبار، ’دی نیوز ‘ میں 20-08-2017 کوشائع ہونے والے اپنے مضمون ’’Do More Pakistan' syndromes of USA‘‘کا حوالہ دیتا ہوں، اور اس سے پہلے میں نے 19 مئی 2017 کو اپنی آٹھ نکاتی تجویز آپ کو بھجوائی تھی ۔ میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے پوری مسلم برادری کوساتھ لے کر چلیں،اور آپ کو تمام مسلمانوں کی مکمل حمایت حاصل ہوگی ۔
جناب ِ صدر، آپ کی پاکستانی قوم کو دھمکی کو بے رخی، بلکہ بے سنگدالانہ بے حسی سے تعبیر کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان توقع کررہا تھا کہ آپ اس جنگ کا قہر جھیلنے پر اس کی حوصلہ افزائی کریں گے ، اور اس کے تعاون کو سراہیں گے ۔ مشرقی سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات کے باوجود پاکستان نے اپنی مالی اور افرادی قوت ملک کے اندر اور پاک افغان بارڈر پر ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے میں جھونک دی ۔ پاکستان کو اربوں ڈالر دینے کا دعویٰ بھی سیاق و سباق سے ہٹ کرہے کیونکہ امریکہ نے رقم مالی امداد کے طور پر نہیں بلکہ اُن سروسز کے عوض فراہم کی تھی جو پاکستان نے امریکی فورسز کو مہیا کیں۔ میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے مشترکہ حکمت ِعملی اپنانے کے آپ کے تصور کو سراہتا ہوں۔ پاکستانی عوام مشترکہ دشمن کے خلاف بننے والی حکمت ِ عملی کے خدوخال کا خیر مقدم کریں گے،ا ور ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑنے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے تاکہ آپ کی مشترکہ حکمت ِعملی کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے انسانیت کے ان دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچا یا جاسکے ۔
جناب ِصدر، پاکستان ایک پرامن ملک ہے ۔ اس نے امریکی اتحادی بنتے ہوئے 1979 ء سے بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں، پہلے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں، اور اب اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، چنانچہ ہمیں ’’ڈو مور ‘‘ کہنے کی بجائے ، جناب ِ صدر ، میری تجویز ہے کہ اب آپ کی ’’ڈو مور ‘‘ کی باری ہے ۔ ہم عالمی امن اور دنیا کو دہشت گردی کے خطرے سے پاک کرنے کے لیے آپ کی نئی حکمت ِعملی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔
آخری لیکن اہم بات، ہم ایک خودمختار ملک ہیںجس نے ہمیشہ اس جنگ میں امریکہ کی مدد کی ہے ، اس لیے محترم آپ سے کہنا ہے کہ بھارتی وزیر ِاعظم ، نریندر مودی کی پاکستان مخالف باتوں پر کان نہ دھریں، اور دیکھیں کہ مسٹر مودی کاریکارڈ ایک ایسے دہشت گرد کا ہے جس کا امریکہ میں داخلہ بند تھا ۔ وہ آر ایس ایس کے ذریعے ابھی بھی فعال ہے۔ اس انتہا پسند تنظیم کا ہدف پاکستان کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانا ہے ۔ پاکستانی عوام دہشت گردوں کے خلاف آپ کی نئی حکمت ِعملی کے ساتھ کھڑے ہیں،اور ہم توقع کرتے ہیں کہ انسانیت کو درپیش اس خطرے کا خاتمہ مشترکہ سوجھ بوجھ اور دانشمندانہ حکمت ِعملی اپنا کر ہی ممکن ہے ۔
نیک تمنائوں کے ساتھ

تازہ ترین