• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

71سالہ امریکی ’’بزرگ‘‘ صدر ٹرمپ کی دھمکی سے سراسیمگی پھیل گئی ۔تاہم اس کا فائدہ بھی ہواکہ ٹولیوں اورفرقوں میں بٹی قوم کی صفیں سیدھی ہوگئیں۔حکمران ہوں یاحزب مخالف ،سویلین ہوں یا فوجی سب نے یک زبان ہوکر امریکی الزامات مسترد کردئیے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد عسکری قیادت نے کہاہے کہ امداد نہیں اعتماد چاہئے۔جبکہ اراکین اسمبلی میں سے اکثر نے یہ نعرہ بلند کیا کہ پاکستان چونکہ ایٹمی ریاست ہے لہذا اسے جواب بھی اسی وقار سے دینا چاہئے۔ الیکٹرانک میڈیا پرتیزگام تجزیہ نگار یہ قرار دے رہے ہیںکہ گزشتہ چار سالوں سے وزارت خارجہ کی Vacancy پر بھی سابق وزیر اعظم نوازشریف ہی پراکسی فرمارہے تھے اسلئے امریکہ میں ہمارا بیانیہ کمزور رہا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات گزشتہ چار دہائیوں سے عوام اور حکومت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر استوار کئے جاتے رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے بھی من وعن یہی بات دہرائی ہے۔ بہرحال ’’نوزائیدہ وزیر خارجہ ‘‘ خواجہ آصف کا دورہ امریکہ فی الحال روک دیاگیاہے۔ وطن عزیز جس کی تاریخی ٹریفک میں آئے روز تاریخی موڑ نمودار ہوتے رہتے ہیں۔اس نئے سنگ میل پر ہم قوم کے جذبوںکو یوں تہنیتی عنوان دیتے ہیںکہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا،نہ کوئی بندہ نواز
سوال یہ ہے کہ ہم توگزشتہ16سالوں سے دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔ اس طویل جنگ میں ہمارے 73ہزار پاکستانی اور اربوں روپے کی املاک خاکستر ہوئیں۔ ہمارے اس قومی دکھ کی کہانی یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کے رچرڈ آرمیٹج نامی ایک اسسٹنٹ سیکرٹری اسٹیٹ کا دھمکی آمیز ٹیلی فون آیا جس پر ایٹمی ریاست (اسلامی جمہوری پاکستان) دہشت گردی کی جنگ کی شراکت دار بن گئی۔ ہمارے مشہورِزمانہ کمانڈوجن کا تکیہ کلام ہوا کرتاتھاکہ ’’میں ڈرتاورتانہیں ہوں ‘‘ جنرل ریٹائرڈ مشرف انہوں نے اپنی خود نوشت IN THE LINE OF FIRE(سب سے پہلے پاکستان ) میں بھی بیان کیاہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے ہمارے ڈائریکٹر انٹیلی جنس سے کہاتھاکہ امریکہ ہمیں ’’پتھر کے زمانے ‘‘ میں دھکیل دے گا۔ لہذا قومی اور ملکی سلامتی کو ’’فول پروف‘‘ بنانے کے لئے ہم دہشت گردی کی جنگ میں برابر کے شراکت دار بن گئے۔تاریخ میں Mother of all Battles(جنگوں کی والدہ ماجدہ ) خلیجی جنگ کو کہاگیاہے جو 1990میں شروع ہوکر 1991میں ختم ہوگئی تھی ۔اس جنگ کو کیانام دیں جو دہائیوں سے ختم ہونے کو نہیں آرہی ؟ 25دسمبر 1979کو روس ، افغانستان داخل ہوا۔لگ بھگ دس سال بعد افغانستان سے روسی افواج کا انخلاتو ہوگیالیکن آج 38سال بعد بھی امریکہ وہیں ڈیرے ڈالے ہوا ہے۔قیاس کیاجاتاہے کہ امریکہ آئندہ کئی سالوں تک افغانستان کو اصلی ’’پٹی فٹنگ ‘‘ قیام امن فراہم کرتارہے گا۔کیونکہ اس کی وجوہات یہ بھی ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالامال دھرتی کویوں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا مزید یہ کہ علاقہ میں سی پیک بننے کے بعد چینی تجارتی منڈیوں کا گوادر کے رستے بر اعظم افریقہ اور یورپ تک رسائی حاصل کرنا بھی سپر پاور پر گراں گزرا ہے ۔دوم افغانستان کی سنگلاخ زمینوں سے پھوٹنے والی پوست جوں جوں دور جائے ،وہ ہیرے موتیوں سے مہنگی ہوتی جاتی ہے!ان چاردہائیوں میں مختلف امریکی صدور اور ان کی انتظامیہ جن میں جمی کارٹر،رونالڈ ریگن،بش (سنیئر) ،جمی کارٹر، بش( جونیئر)اوبامااوراب ٹرمپ شامل ہیں سبھی نے پاکستا ن سے ڈومور کا مطالبہ کیا۔
ہم نے اپنے بچپن،لڑکپن ،جوانی اور نیم بزرگی تک جتنے صدور بھی دیکھے ہیں ان میں ٹرمپ انوکھے ہیں۔ ان کی حرکات وسکنات فینٹیسی کامیڈی فلم THE MASK کے سپر ہیرو جم کیری سے ملتی جلتی ہیں جو اپنی حقیقی زندگی میں ایک ناکام کلرک دکھایاگیاہے لیکن اسے جب جادوئی طاقتوںکا حامل ایک ماسک ملتاہے تو وہ زندگی میں کہرام مچادیتاہے۔THE MASKوالی تکنیک ہمارے ہاں بھی بروئے کار لائی گئی۔ہماری قسمت کے سیاہ وسفید کے مالکان نے اپنے چہروں پر عشروں مختلف نظریات کے ماسک پہنے رکھے ۔کبھی افغان جہاد کے نام پرامریکی سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ لڑی گئی اور کبھی روشن خیالی کا نعرہ لگا کر ہمیں دہشت گردی کی خوفناک جنگ میں جھونک دیا گیا۔ افغان جہاد نامی یہ جنگ جو سوویت یونین اور امریکہ کے مابین افغانستان میں لڑی گئی تھی اس کے سالار اعظم جنرل ضیا الحق تھے۔آج ہمیں جن دکھ درد ،تکالیف اور جملہ اذیتوں کا سامنا ہے ا ن سب کے ’’بانی ِ اول ‘‘ ضیاالحق ہی قرار پاتے ہیں۔جنرل مشرف کی طرح جنرل ضیا بھی کہاکرتے تھے کہ افغان جہاد میں امریکہ کا اتحادی بننا وقت کی اہم ضرورت تھا۔جنرل مشرف اپنی کتاب کے صفحہ 279میں لکھتے ہیں’’افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف ہماراجہاد میںشامل ہونا ایک فطری امر تھا کیونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ وہاں پر جم جائیں اور پھر ہمارے گرم پانیوں والے سمندری ساحلوں کا رخ کریں۔2001میں ہمارا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونا بھی ضروری تھاکیونکہ ہم خود برسوں سے فرقہ وارانہ اور غیر ملکی دہشت گردی کا شکار رہے تھے اور ہم یقینا طالبان کے معاشرے کو اپنے ملک میں فروغ نہیں دینا چاہتے تھے۔ان دونوں حقائق کے پیش نظر ہم نے جو بھی کیااپنے قومی مفاد میں کیا۔جس طرح ہم سوویت بالادستی قبول نہیں کرسکتے تھے اسی طرح ہم اپنے گھر میں دہشت گردوں یا انتہاپسندوں کو برداشت نہیں کرسکتے تھے جو ہمارے معاشرے میں تشدد اور انقلابی عمل کو اسلام کا مقصد بتا کر عوام کو ورغلاتے ہیں‘‘۔ اس عرصہ میں اوجڑی کیمپ کے دھماکوں سمیت ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کی برآمدگی اور ڈالروں کے عوض سی آئی اے کو مطلوبہ افراد کی فراہمی کے علاوہ دیگر واقعات نے معاملات کو مشکوک بنایا۔
پاکستان اورامریکہ کے تعلقات کی بنیاد بابائے قوم نے خود رکھی تھی۔قیام پاکستان سے 4ماہ قبل یکم مئی 1947کو قائد اعظم نے ممبئی میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ (Raymond A Hare)اوربھارت میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری ( Thomas E Weil )سے ملاقات۔ اس ملاقات میں امریکی سفارت کاروں کویقین دلایاگیاکہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہوگا۔ اس وقت خطے کے معروضی حالات ایسے تھے کہ نو آموز پاکستان کو روس اورہندوسامراج سے خطرہ محسوس کیاجارہا تھا لہذا اس وقت کی سپر پاور کا اعتماد حاصل کرنا ضروری سمجھا گیا۔امریکہ اورپاکستان کے تعلقات کی نوعیت کوسمجھنا اسلئے بھی مشکل ہے کہ آج 70برس گزرنے کے بعد ہم پھر وہیں کھڑے ہیں۔
جہاں اس بندھن میں بندھے تھے۔افسوسناک صورت حال ہے کہ تجزیہ کار اوردانشورسیاسی اور عسکری ٹیموں کی شکل میں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے میں مصروف ہیں۔ذمہ داری تو سب کی ہے کہ اس سچویشن سے قوم کو جلد از جلد نکلاجائے۔سیاستدان ،حکومت اور خارجہ پالیسی کے ذمہ داران ادارے اپنے فرائض کا تعین کریں اور ماضی سے سبق بھی سیکھیں ۔خارجہ پالیسی بناتے ہوئے سب سے زیادہ کردار جمہوری نمائندوں کا مقرر کیاجاناچاہئے۔ چین ،روس اورامریکہ سمیت دنیا میں کہیں بھی خارجہ پالیسی سوفیصد منتخب حکومتوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی ہمیں بھی اس فارمولے سے استفادہ کرتے ہوئے وہی ماسک چہرے پر چڑھا لینا چاہئے جو دوسری قوموں نے چڑھا رکھا ہے لیکن یہ بھی طے کرلینا چاہئے کہ مستقبل کے لئے قوم کو اب مزید ’’لہولہوخارجہ پالیسی‘‘ نہیں چاہئے۔

تازہ ترین