• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ریٹائرڈ آرمی جنرل اور دوہزار چودہ کے مشہور دھرنے کے دنوں میں منگلا میں تعینات کور کمانڈر نے کہا کہ مارشل لا کسی بھی وقت لگایا جاسکتا ہے یہ کوئی مشکل بات نہیں اس عمل کے لئے بس ایک جیپ اور ٹرک کافی ہے ۔ بحیثیت ایک پاکستانی مجھے ان جملوں سے بہت زیادہ تکلیف پہنچی کہ ایک ایسا جنرل جو 2013 میں آرمی چیف بننے کے لئے پانچ بڑے ناموں میں شامل تھا اس طرح کا بیان کیسے دے سکتا ہے۔ کیا یہ ایک بھونڈا مذاق نہیں کیا مارشل لا کی اس طرح حمایت کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں۔ مجھے نہیں پتہ مقتدر حلقوں نے اس بیان پر توجہ کیوں نہیں دی ابھی حال ہی میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی رنجش نہیں اور نہ کبھی تھی دونوں قوتیں پاکستان کی طاقت ہیں اور آئین پاکستان کی پابند لہذاجو عناصر سول ملٹری تعلقات میں اپنے بیانات کے ذریعے دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل پاکستان سے مخلص نہیں۔ میرے نزدیک ایک جیپ اور ایک ٹرک والی بات دراصل اسمبلی کی توہین ہے جس پر ریٹائرڈجنرل کو اپنے الفاظ کی وضاحت کرنی ہوگی کاش وہ یہ کہتے کہ سرحدوں پر موجود بزدل دشمن کو تہس نہس کرنے کے لئے ہماری ایک جیپ اور ایک ٹرک ہی کافی ہے کاش وہ یہ کہہ دیتے کہ ہماری صفوں میں گھسے دہشت گردوں کو روندنے کے لئے ایک جیپ اور ایک ٹرک ہی کافی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی یہ ایک جیپ اور ایک ٹرک دشمنوں سے لڑنے کے لئے چلا تو قوم نے پٹرول کی جگہ اپنے خون سے اسے رواں دواں رکھا چاہے وہ آپریشن ضرب عضب ہو رد الفساد ہو خیبر چار ہو یا اس سےپہلے کی ہر جنگ جس میں ہماری بہادر فوج نے دشمن کو اپنے پاؤں تلے روند دیا۔
ایک جیپ اور ایک ٹرک کی یہ سوچ آج کی نہیں ہے بلکہ اس کا آغاز تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا جب جنرل گریسی کو مسلح افواج کا سربراہ بنایا گیا تھا اور تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح جنرل گریسی نے متعدد مواقعوں پر قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم کی تعمیل نہیں کی اپنے آخری ایام میں جب وہ زیارت میں صاحب فراش تھے تو جنرل گریسی سے بہت زیادہ نالاں تھے کیوں کہ انھوں نے قائد اعظم کے تقریباً ہر حکم کو نظر انداز کردیا تھا ۔ بس پھر یہ سلسلہ رُکا نہیں ہم نے اپنی آستینوں میں اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے لوگ دیکھے چوہدری محمد علی کے بعد جس طرح غلام محمد نے سیاستدانوں کو تضحیک آمیز اندازسے ہانکنا شروع کیا نظریہ پاکستان کا رُخ ہی بدل گیا اور پھر سیاستدان اُس کے بعد سے لیکر آج تک اپنی مستحکم حیثیت کو منوا نہ سکے کبھی ادھر ڈوبے اُدھر نکلے اور کبھی اُدھر ڈوبے اور ادھر نکلے کے مصداق نظریہ پاکستان کے بجائے نظریہ ضرورت کے تحت سیاست کرتے رہے۔ 1973 کے آئین کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی کوششیں رنگ لارہی تھیں اور ایک دفعہ پھر سیاستدان استحکام حاصل کررہے تھے پاکستان ایک مستحکم جمہوری ریاست کی طرف بڑھ رہا تھا کہ پھر ایک دفعہ ایک جیپ اور ایک ٹرک اپنا کام دکھا گیا اور اُس کے بعد تو جمہوریت مکمل طور پر اپنا بوریا بستر لپیٹ کر کسی کونے میں جاکر بیٹھ گئی یا ایک ایسے طالبعلم کی مانند ہوگئی جو صبح صبح حالت نیند میں روز اسکول جاتا اور کلاس میںحاضری کے وقت سوتی آنکھوں سے ہی حاضر جناب کی صدا لگادیتا ہے۔ ہماری جمہوریت بھی اسی طرح کلاس میں تو ہے مگرآدھی سورہی ہے اور استاد خوش ہے کہ وہ سوتی رہے کیوں کہ پھر استاد کو پڑھانے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی اور امتحان کے وقت بیچارہ طالبعلم فیل ہوجاتا ہے اور استاد کو نئے اور طالبعلم مل جاتے ہیں۔ اور پھر بھٹو کے بعد یہ ہی ہوا ایک طالع آزما نے آئین کو اپنے پیروں تلے روند دیا اپنی مرضی کی ترمیمیں کیں اور اداروں کو برباد کردیا سلسلہ ایک طالع آزما سے دوسرے تک چلتا گیا آئین اُن کے گھروں اور ذاتی خواہشوں کو پورا کرنے کی کتاب بن گیا اور جب جب ایک جیپ اور ایک ٹرک نے چاہا اُس کے قرطاس کو اپنے ٹائروں تلے روند دیا۔ اسمبلی تماش گاہ بن گئی انتخابات مذاق اور سیاست دان بے اثر ۔ جس جس نے راستے میں آنے کی کوشش کی اُس کو یہ کہہ کر ہٹادیا گیا کہ آخری مکا صرف میرا۔
میں صرف یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ مارشل لا کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور کیوں پاکستان کی تاریخ کاہر مارشل لا اپنی حاصل کی گئی مدت میں خود ہی ہمیشہ اضافہ کرتا رہا اور ہمارے قیمتی سال کھا گیا سوال یہ نہیں ہے کہ کس کے دور میں کتنی ترقی ہوئی سوال یہ ہے کہ پاکستان کن بنیادوں پر بنایا گیا کیا ہم ابھی تک اُس نظریہ سے جُڑے ہوئے ہیں یا صرف قائد کا نام ہی کافی ہے باقی نظریے ہر دور میں نظریہ ضرورت بن گئے۔ کیا کسی کے اندر ہمت ہے کہ آج جسٹس منیر کی روح سے سوال پوچھے کہ کیوں ریڈکلف کمیشن کاممبر ہونے کے باوجود آپ نے مسلم اکثریت کے علاقوں گورداسپور فیروزپور کو پاکستان میں شامل ہونے پر زور نہ دیا اور پھر آزادی کے بعد آپ چیف جسٹس بھی بنادئیے گئے۔ کس نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ دیں اور ایسی روایت ڈال دیں کہ پھر یہ مُلک کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے ادارے بن نہ سکیں اور نظریہ ضرورت ہر دور میں سب سے بڑا ہتھیار بن جائےکبھی فاطمہ جناح کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کرکے کبھی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو تہہ خانوں میں چُھپاکے کبھی بھٹو کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھاکے اور کبھی نواز شریف کو ایک ایسے الزام میں نااہل کرکے جس کو آپ کی آنے والی نسلیں بھی ایسے ہی یاد رکھیں گی جیسے آج بھٹو کی مظلومیت کو۔
اخلاقی وقانونی طورپر سبکدوش ہونے والے وزراء اعظم صدور ریٹائر ہونے والے جنرلز ججز اور آئینی محکموں کے سربراہان کوپابند ہونا چاہئے کہ وہ ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی کے بعد کبھی بھی میڈیا یا عوامی مقامات پر اہم ملکی معاشی قانونی سیاسی اور فوجی رازوں پر گفتگو نہیں کریں گے کیوں کہ اپنی مدت ملازمت کے دوران وہ اس طرح کے عظیم رازوں کے امین ہوتے ہیں جن سے ملک کی بقا سلامتی عوام کی خوشحالی وابستہ ہوتی اور پھر بعد از ملازمت جب وہ اپنے سابقہ اداروں کے خودساختہ ترجمان بن کر ان رازوں کو عام کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوتی ہے بلکہ عوام اور اداروں دونوں ہی کی سلامتی کو خطرہ ہوتا ہے اور آپس میں چپقلش کا بھی آغاز ہوتا ہے جوکبھی کبھی انتہا کو چھولیتا ہے جس کا پاکستان ماضی میں کئی مرتبہ شکار رہا ہے اور ایسی قیمت ادا کی ہے کہ کبھی بھی واپس نہیں مل سکتی ۔ لہذا ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ گریڈ اکیس یا اس سے اوپر کا ریٹائرڈ آفیسر ریٹائرڈ فوجی جنرل ائیر مارشل ایڈمرل سپریم کورٹ کا جج وزیر اعظم صدر چیف ایگزیکٹو زندگی میں کبھی بھی کسی عوامی اجتماع یا میڈیا پر اپنی ملازمت کے دوران کے راز افشا نہیں کرسکے۔ یقین کریں اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ہمارے ادارے اپنی آئینی حدود کے بھی پابند ہوجائیں گے اور آپس کی دوریاں بھی کسی حد تک ختم ہوجائیں گی کیونکہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان خودساختہ ترجمانوں نے پہنچایا ہے جبھی تو حال میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو اپنی پریس کانفرنس میں کہنا پڑگیا کہ پاکستان آرمی کی پالیسیوں اور ارادوں کے متعلق بات کرنے کا اختیار صرف موجودہ آرمی چیف کے پاس ہے اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف سیاسی بیان دیتے ہیں جس سے آرمی کا کوئی تعلق نہیں۔

تازہ ترین