• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے صدر ٹرمپ، جن کی غیر متوازن پالیسیوں سے خود امریکی بھی نالاں ہیں حتیٰ کہ کانگریس میں ان کے مواخذے کی درخواست بھی پیش کی جا چکی ہے، کی نئی افغان پالیسی خصوصاً پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے خلاف بھارت اور افغانستان کے سوا دنیابھر میں شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چین اور روس کے بعد ایران نے بھی افغانستان میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے خلاف امریکی صدر کےبیان پرشدید نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ خطے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے الزام لگایا تھا کہ افغان دہشت گردوں نے پاکستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور پاکستان ان کی مدد کر رہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ آج اس خطے بالخصوص افغانستان کے بارے میں اپنی غلط اور بے وقت پالیسیوں کے نتائج پر دوسرے ملکوں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اس کی مفاد پرستی پر مبنی حکمت عملی اور بے جا مداخلت کے نتیجے میں اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ الٹا خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے۔ عالمی میڈیا نے بھی امریکی صدر کے بے سروپا الزامات پر تنقید کی ہے کئی موقر عالمی اخبارات اور جرائد نے لکھا ہے کہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی رہنما اور میڈیا اس رائے پر متفق ہیںکہ پاک فوج نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے اڈوں کو تباہ کردیا ہے اور افغانستان میں دہشت گردی کے جو بھی واقعات ہو رہے ہیں وہ باہر سے نہیں اندرسے ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کر چکی ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی جمعہ کو افغان میڈیا کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہ نہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی پاکستان پر الزامات سے نہیں تعاون سے ختم ہو گی، ٹرمپ اس حقیقت کو جتنی جلد قبول کر لیں ، عالمی امن کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

تازہ ترین