• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی بائولا ہو جائے، تو آپ تو بائولے ہونے سے رہے۔ شاید امریکہ بہادر کے ساتھ ایسی نہیں بیتی جیسی ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں امریکی اقدار کی مٹی پلید ہو رہی ہے۔ سفید فام برتر قوم پرستی، نسل پرستی اور فسطائیت کو امریکی صدر ہی ہوا دے رہے ہیں اور شہری آزادیوں کے مبلغ ہزاروں کی تعداد میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی تقسیم نہیں، سینکڑوں سالوں سے یہ مجادلہ جاری ہے۔ اسے بڑی انگیخت اب ٹرمپ کی نفرت انگیزی سے مل رہی ہے۔ ٹرمپ سے آپ کچھ بھی توقع کر سکتے ہیں۔ گو کہ وہ افغانستان اور عراق میں فوجی مداخلت کے خلاف تھا اور ابھی بھی وہ نہیں چاہتا تھا جس کا کہ اُس نے اعلان افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لئے اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے حوالے سے گزشتہ دنوں کیا۔ اگر یہ فقط اُس کا ٹوئیٹر پیغام ہوتا تو آپ اُسے ٹال سکتے تھے۔ یہ فیصلہ لمبے غور و خوض کے بعد سُپرپاور کی عالمی فوجی مقتدرہ نے کیا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے مصنف وزیرِ دفاع جنرل میٹس اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر ہیں اور تقریباً سارے فوجی کمانڈرز اور کابینہ کے ارکان نے کیمپ ڈیوڈ میں اس کی منظوری دی ہے۔ 16 سال سے جاری امریکہ کی طویل ترین جنگ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا۔ افغانستان سے بھاگ نکلنا امریکیوں کے لئے بڑا مشکل تھا کہ جن دہشت گردوں کو ختم کرنے چلے تھے، وہ اور پھیل گئے ہیں اور نکلنے پر جو خلا پیدا ہونا تھا، اُسے پُر کرنے میں طالبان کو بہت بڑی مشکل نہ ہوتی۔ یہ ایک مخمصہ تھا اور ہے۔ نکلنے کا چارہ نہیں اور افغان نراجی دلدل کو مستحکم کرنے کا یارا نہیں!! اس پر کسی کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔ اس بار افغانستان ہمارے گلے پڑ گیا تو بس پھر کچھ خبر نہیں کہ کیا ہو، شاید عراق اور شام سے بھی بدتر۔ جو کام صدر اوباماایک لاکھ امریکی فوجیوں اور اتنے ہی نجی حربی ٹھیکیداروں، 100 ارب ڈالر سالانہ فوجی اخراجات اور 35 ارب ڈالر سالانہ افغان انتظامیہ پر اُٹھنے والے خرچے کے باوجود نہیں کر پائے، وہ اب ٹرمپ انتظامیہ فقط 12,400 امریکی اور 13,000 نیٹو/آئی ایس اے ایف کے فوجی دستوں کی مدد سے کرنے کی خواہاں ہے۔ گو کہ ارادہ فوجی کمانڈروں کو کھلی چھٹی دے کر داعش، خراسانیوں اور افغان طالبان کو تہہ و تیغ کر دینے کا ہے، لیکن مقصد طالبان کو دباؤ میں لا کر کسی سیاسی سمجھوتے پر پہنچنے کا ہے۔ جبکہ صدر ٹرمپ امریکی پیسہ پھر سے پانی کی طرح بہانے کو تیار نہیں۔ لہٰذا اُنہوں نے ایک طرف تو کابل انتظامیہ کو کہا ہے کہ اب کوئی کھلا چیک نہیں اور دوسری طرف اُن کی نظریں ایک کھرب ڈالرز کی افغانی معدنیات پر ہیں اور اُنھوں نے اپنے ہم رکاب بنیے وزیراعظم مودی سے کہا ہے کہ بچُو یہ جو تم امریکہ سے تجارت میں 45 ارب ڈالرز سالانہ کا فائدہ لے رہے ہو، ذرا اسے افغانستان میں لگا کر ہمارا بوجھ ہلکا کرو۔ باچھیں تو دلی میں ایف پاک (AfPak) پالیسی کے AF/Pak/India میں بدلنے اور بھارت کے افغانستان میں بڑے کردار پر بہت کھلیں، لیکن جو قیمت وصول کی جا رہی ہے، اُس پر بھارت شاید اتنا تیار ہو کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین سے جارحیت کو تقویت اور دباؤ جاری رکھا جا سکے اور وہاں کی معدنیات سے چینیوں کی طرح مال بنایا جا سکے۔ اس پالیسی کا نہ تو کوئی سرا ہے، نہ انجام کی خبر۔ جس طرح ٹرمپ نے اپنے دیگر تمام اتحادیوں کو ناراض کیا ہے اور اُن سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے، اُس سے کہیں زیادہ اس نے پاکستان کے لتے لئے ہیں۔ یہ مطالبہ تو پچھلی دو امریکی انتظامیہ بھی کرتی رہی ہیں کہ افغان طالبان اور خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے اور اُن کی پاکستان میں پناہ گاہیں تباہ کی جائیں۔ لیکن اس بار جس شدت سے امریکہ کے ایک جنونی صدر نے یہ دھمکی دی ہے، شاید پہلے کبھی ایسے نہیں کیا گیا تھا۔ اس موضوع پر بات چلتی رہتی تھی، لیکن بات بہت زیادہ بگڑی نہیں تھی۔ اگر امریکیوں کی تسلی نہ کی گئی تو اس بار بات بگڑنے کا کہیں زیادہ خدشہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان اور جنوبی ایشیا میں آسمان پر چڑھا کر ہماری مقتدرہ کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔ اور ظاہر ہے ردّعمل تو ’’تمہاری ایسی کی تیسی‘‘ والا ہی ہو سکتا تھا۔ لیکن آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے نہایت تحمل اور بُردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت نپا تلا جواب دیا ہے۔ اگر پاکستان دفاع کونسل کے بے تیغ مومنوں کی آتشِ نمرود میں کودنے کی دُہائی پہ کان دھرا جاتا تو وہ ہونا تھا جو خودکش حملہ آوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کہاں امریکی سپرپاور اور کہاں پیدل خودکش! اب اگر افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان اور ایران کی بھرپور مدد کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ ایران تو پہلے ہی امریکی جارحیت کی زد میں ہے اور اگر پاکستان کو بھی نشانہ بنایا گیا تو اس نئی امریکی پالیسی کا انجام شاید پہلے سے بھی بُرا ہو۔ پاکستان نے بتدریج ایک جہادی ریاست سے جہاد مخالف ریاست کی طرف بڑی زقندیں لگائی ہیں۔ اور 60 ہزار سے زیادہ معصوم شہریوں اور 10 ہزار سے زائد جری فوجیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت کے اُن جنگلوں کا کافی حد تک صفایا کر دیا ہے جو امریکی سرپرستی میں جنرل ضیاء الحق نے لگائے تھے۔ گو کہ باقیات ابھی بھی موجود ہیں اور اُن سے چھٹکارا پانے میں کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں، سوائے نظریاتی و مذہبی میدان جہاں فسادی اور متشدد نظریات کی ابھی بھی فراوانی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسی کے اعلان سے پہلے پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادت کے ساتھ کافی تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (DGPR) نے افغان صحافیوں کو بتا دیا ہے کہ پاکستان نے امریکی کمانڈروں کو بتایا ہے کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور یہاں اُن کی پناہ گاہیں نہیں رہیں۔ اگر ایسا ہے اور ہم واقعی اپنی متعلقہ اعلان کردہ پالیسی کہ پاک سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا کو یقینی بنا رہے ہیں تو پھر غم کاہے کا۔ ویسے بھی اب افغان طالبان افغانستان کے 40 فیصد رقبے پر حاوی ہو چکے ہیں اور انہیں اب سرحد کے اِس پار پناہ گاہوں کی کیا ضرورت رہ گئی ہے۔ اگر کوئی رہ گیا ہے تو اُسے کہا جائے بھائی تم جانو تمہارا کام، ہماری جان خلاصی کرو۔ بات چیت کرو یا رفو چکر ہو جاؤ۔ پاکستان کیسے اپنی سرزمین پر افغان جنگ کی اجازت دے سکتا ہے یا پھر اس کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے۔ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ہمیں یاد ہے۔ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور منہ بھی کالا ہوا۔ اور کم بختی آئی بھی تو زرداری حکومت کی اور وہ بھی جھوٹے میموگیٹ کے ہاتھوں۔ ضرورت ہے کہ ابھی فوری طور پر افغان طالبان بارے پالیسی بدلی جائے۔ ہم کیوں ان کی وجہ سے امریکیوں کو جارحیت کی دعوت دیں، جبکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ داعش کی طرح کی طالبان حکومت پھر سے کابل میں بنے اور پاکستان کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دے۔ رہی بات سیاسی حل کی اُس پر پاکستان مسلسل اصرار کرتا رہا ہے۔ جب بھی اس بارے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہو تو افغانستان میں امن کیلئے کسی ایسے سیاسی سمجھوتے میں کیا مضائقہ جو افغانستان میں بربریت کے خاتمے اور امن کا ضامن بنے۔ہمارے آرمی چیف کو خوب اندازہ ہے کہ امریکیوں کو پاکستان کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
امریکہ کی افواج کے سربراہ جنرل ڈن فورڈ نے کہا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغان جنگ نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغان جنگ کوئی نہیں جیت سکتا، سب مل کر بھی نہیں جیت سکتے اور طالبان کو بھی کابل پر بلاشرکتِ غیرے کبھی اقتدار ملنے والا نہیں۔ اس کا حل صرف سیاسی ہے اور جمہوری بھی۔ افغان ریاست کی تعمیر کی جو کوشش سوویت یونین اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی ہیں، اُنہیں اکارت نہیں جانا چاہیے اور نہ ہی ان کوششوں کو ختم کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے نئی امریکی پالیسی افغان ریاست کی تعمیر سے تائب ہو گئی ہے اور اسے غرض نہیں کہ وہاں کیسا نظام آتا ہے۔ انہیں فکر صرف ایک ہے کہ افغانستان دوبارہ جہادیوں کا اڈہ نہ بنے۔ بھلے افغان طالبان افغان معاشرے کے ساتھ جو بھی سلوک کریں۔ لیکن افغانستان کے ہمسائے، بھارت اور چین مل کر بھی 100 ارب ڈالر نہیں خرچ کر سکتے جو امریکیوں نے 16 برس میں کیے ہیں۔ اور نہ افغانستان کے ہمسائے ایک اور داعش کی طرز کی انتہاپسند حکومت کے ساتھ گزارہ کر سکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ افغانستان کا امن پاکستان اور وسطی ایشیا کے لئے اہم ہے اور اس کے لئے ہمیں کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ افغانستان میں ہمارا زیادہ سے زیادہ قومی مفاد ایک مستحکم اور پُرامن سرحد اور وسطی ایشیاتک تجارتی راہداری ہے۔ رہی بھارت کی بات، تو اُسے افغانستان میں پاکستان کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔ افغانستان سے پاکستان کے خلاف جنوب مغربی محاذ کھول کر وہ کیسے وسطی ایشیااور ایران تک پہنچ سکتا ہے، جبکہ بیچ میں پاکستان بھی ہے۔ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر کے تباہی بمقابلہ تباہی سے چھوٹی موٹی خون آلود ٹرافیاں تو مل سکتی ہیں، ترقی کے راستے نہیں اور نہ ہی کشمیری اب دبنے والے ہیں، بھلے پاکستان کیوں نہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دے۔ شاید ٹرمپ کی پالیسی میں پاک بھارت تنازعات کے لئے کوئی راستہ نکلتا ہو (معلوم نہیں)۔ ابھی ٹرمپ کی پالیسی کے پر پُرزے نکلنے ہیں۔ ہمیں سنبھل کر چلنا ہے اور آ بیل مجھے مار کے بڑھک بازوں کے اشتعال سے بچنا ہے۔ دشمن جو چاہتا ہے اُس کے ہاتھ میں نہیں کھیلنا۔ اور وہ کرنا ہے جو ہمارے قومی مفاد میں ہے اور وہ ہے سی پیک اور تیز رفتار معاشی ترقی۔ ورنہ آبادی کا جو بم پھٹ چکا ہے اور اس میں اب 19 برس میں 56 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ بیکار نوجوانوں کے جمِ غفیر کو کارآمد بنانے کی فکر کرو۔ تجھے پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!!

تازہ ترین