• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت داخلی اور خارجی سطح پر انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا ہے ۔ یہ صورت حال علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نئی صف بندیوں کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت سیاسی قیادت کے تدبر کا امتحان ہے ۔ اگر سیاسی قیادت نے درست فیصلے نہ کیے تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف جو بیان دیا ہے ، اسے صرف ٹرمپ کی نئی پالیسی کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسے علاقائی اور عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ پیر 21 اگست 2017 ء کو امریکی ریاست ورجینیا میں فورٹ مائیر میں قوم سے خطاب میں امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’ ہم اس بات پر زیادہ دیر خاموش نہیں رہ سکتے کہ پاکستان دہشت گردوں کے لئے محفوظ جنت بنا رہے ۔ اس صورت کو تبدیل ہونا ہو گا اور فوراً تبدیل ہو نا ہو گا ۔ امریکہ بھارت کے ساتھ تزویراتی شراکت داری ( اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ) میں مزید اضافہ کرے ۔ ‘‘ دیگر امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات سے یہ بھی اشارہ دے دیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کا ’’ غیر نیٹو اہم اتحادی ‘‘ کا درجہ ختم کر سکتا ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان اور ان کی نئی افغان اور جنوبی ایشیائی پالیسی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ ٹرمپ سے پہلے بھی امریکی پالیسی واضح ہو چکی تھی لیکن نئی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اس خطے میں بڑی مہم جوئی کر سکتے ہیں ۔ اس مہم جوئی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو اپنی حکمت عملی ابھی سے وضع کرنا ہو گی ۔ ٹرمپ کے بیان سے نہ صرف پاکستان کے لئے خطرات پیدا ہوگئے ہیں بلکہ اس خطے کے امن کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ ( ایک شاہراہ ایک پٹی ) کے منصوبے نے دنیا میں نئی صف بندی کے لئے معروضی حالات کی نشاندہی کر دی ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے ۔ اس وجہ سے بھی امریکہ نے ہمارے خطے میں پاکستان کو اپنے اتحادیوں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور بھارت سمیت خطے کے وہ ممالک جو ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ نہیں ہیں ، وہ امریکہ کے زیادہ قریب ہو رہے ہیں ۔ چین اور روس ان ممالک کے لئے نئے بلاکس بنانے کے لئے کوشاں ہیں ، جو ون بیلٹ ون روڈ میں آتے ہیں ۔ اس طرح پاکستان غیر اعلانیہ طور پر امریکی کیمپ سے نکل چکا ہے ۔ امریکہ نہ صرف چین اور روس کے نئے عالمی ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لئے ہمارے خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے بلکہ وہ پاکستان کو سب سے زیادہ سزا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو سکتا ہے ۔ اس تناظر میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے لئے خطرات ہماری توقع سے بھی زیادہ ہیں ۔
چین اور روس اگر امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کو دھمکی آمیز بیان پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک اس خطے میں نئی امریکی پالیسی کے مضمرات اور اثرات سے آگاہ ہیں ۔ چین اور روس کسی وجہ کے بغیر پاکستان کے دفاع میں آگے نہیں آئے ہیں ۔ اس کے ردعمل سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ یہ دونوں ممالک پاکستان کو امریکی کیمپ سے ہمیشہ کے لئے الگ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے عالمی ایجنڈے میں پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت ہے ۔ پاکستان کو یہ تمام پہلو مدنظر رکھنا ہوں گے ۔
اس صورت حال میں پاکستان داخلی سطح پر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے ۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ میاں محمد نواز شریف کو نہ صرف اپنی سیاسی بقاکا سوال درپیش ہے بلکہ ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو رہا ہے ، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست میں میاں محمد نواز شریف کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور وہ اسے اپنا مقدر سمجھ کر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے ، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ میاں نواز شریف سیاست میں واپسی اور مزید قانونی گرفت سے بچنے کے لئے جو کچھ کر سکتے ہیں ، وہ انہیں ابھی اور فوراً کرنا ہے ۔ اس وقت تک پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان کی پارلیمنٹ پر ان کا کنٹرول ہے ۔ وہ اپنی سیاسی جماعت اور پارلیمنٹ کو اپنی سیاسی بقااور دفاع کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔ ان کی سیاسی جماعت شاید سڑکوں پر ان کے لئے وہ عوامی حمایت حاصل نہ کر سکے ، جس کی وہ توقع کر رہے ہیں ۔ ان کا زیادہ تر انحصار پارلیمنٹ پر ہو گا ۔ میاں محمد نواز شریف پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کا ایسا بل لا سکتے ہیں ، جو ان کی دانست میں ان قوتوں کو کمزور کرے گا ، جنہوں نے انہیں اقتدار سے نکالا اور انہیں عبرت ناک مثال بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کی یہ کوشش اداروں میں تصادم کا باعث بن سکتی ہے ۔ تصادم ناگزیر نظر آ رہا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن پیپلز پارٹی اس تصادم کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
خارجی چیلنجز اور داخلی سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ ایک اور تشویش ناک عامل ( فیکٹر ) یہ ہے کہ ہماری قومی سیاسی قیادت خصوصاً سویلین قیادت کا ملک کی خارجہ پالیسی میں عمل دخل بہت کم ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے داخلی امور میں بھی سویلین قیادت کا عمل دخل کم ہو گیا ہے ۔ اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے سیاسی قیادت کا کڑا امتحان ہے کیونکہ پاکستان میں اب تک داخلی اور خارجی امور سے متعلق جتنے بڑے پالیسی فیصلے ہوئے ، ان میں سیاسی قوتوں کا عمل دخل کم تھا ۔ اب بھی یہی صورت حال ہے لیکن اب پاکستان زیادہ مشکلات کا شکار ہے ۔ 70 سال بعد امریکی کیمپ سے نکل رہا ہے اور ایک ایسی دنیا میں اپنا کردار متعین کر رہا ہے ، جو ابھی تشکیل پذیر ہے ۔

تازہ ترین