• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز جو پاکستان کی صنعت و تجارت کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے، ہر سال ملکی مالی و مالیاتی پالیسیوں، نجی شعبے کے قرضوں، ملکی معیشت میں زرعی، مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹرز کی کارکردگی پر ایک اہم اجلاس منعقد کرتی ہے جس میں ملک کے ممتاز صنعتکار، ایکسپورٹرز، کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندے، بزنس کمیونٹی کے لیڈرز اورپاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کے سربراہان شرکت کرتے ہیں۔ میں گزشتہ ایک عشرے سے زائد فیڈریشن کی اس اہم کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہورہا ہوں۔ اس سال بھی فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل اور میں نے فیڈریشن ہائوس میں گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ، ڈپٹی گورنر جمیل احمد، پاکستان بینکنگ سروسز کے منیجنگ ڈائریکٹر قاسم نواز، اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز اور 20 نجی بینکوں کے صدور کے ہمراہ ایک اہم اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں حبیب بینک، یو بی ایل، ایم سی بی، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، بینک الفلاح، زرعی ترقیاتی بینک، میزان بینک، دبئی اسلامک بینک،سمٹ بینک، سندھ بینک، حبیب بینک اے جی زیورخ جبکہ نجی شعبے کی طرف سے ملک بھر کے چیمبرز اور ایسوسی ایشن کے صدور، ممتاز ایکسپورٹرز، صنعتکاروں، بزنس لیڈرز اور فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی اور بزنس کمیونٹی کے بینکنگ ایشوز پیش کئے۔
میں نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی صنعت بالخصوص ٹیکسٹائل سیکٹر بحران کا شکار ہے، پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے ہماری مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں غیر مقابلاتی ہوگئی ہیں اور ملکی ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ارب ڈالر سالانہ تک رہ گئی ہے جبکہ ہمارے مقابلاتی حریف بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس36 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے حالانکہ بنگلہ دیش خام مال کاٹن، یارن اور کپڑا زیادہ تر غیر ممالک سے امپورٹ کرتا ہے لیکن پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے اس کی مصنوعات کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل کی اسٹیٹ بینک میں ایک اہم میٹنگ جس میں اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک، تمام کمرشل بینکوں کے صدور اور پاکستان سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے نمائندوں نے شرکت کی تھی، میں بتایا گیا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر بحران کی وجہ سے فیصل آباد صنعتوں کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس وقت ملک میں 150 سے زائد ٹیکسٹائل مل بند ہوچکی ہیں اور بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو 25 فیصد قرضے ڈیفالٹ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے نئی صنعتیں جمود کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ملازمتوں کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ ملکی امپورٹس مسلسل اضافے سے 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ایکسپورٹس کم ہوکر 20 ارب ڈالر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک جاپہنچا ہے جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی 12 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں سے حکومتی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہمیں شاید دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے۔ موجودہ صورتحال میں ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 14 ارب ڈالر تک آگئے ہیں جو بمشکل ہمارے تین ماہ کے امپورٹ بل کیلئے کافی ہیں۔ حکومت پاکستانی روپے کو موجودہ سطح پر رکھنے کی کوشش کررہی ہے لیکن زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے پاکستانی روپے کی قدر پر شدید دبائو ہے۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کو بتایا کہ ماضی کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی (ڈی ویلیو ایشن) سے ہمیں کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ ایکسپورٹرز نئے آرڈرز لینے کیلئے ایکسچینج ریٹ کا فائدہ بیرونی خریداروں کو منتقل کردیتے ہیں اور ان کی پیداواری لاگت میں کمی نہیں ہوتی۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کی توجہ اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کے طریقہ کار پر کرائی اور بتایا کہ رجسٹرڈ ٹیکس پیئرز کو ہراساں کیا جارہا ہے، ایف ایم یو ٹیکس ادا کرنے والے بزنس مینوں کے اکائونٹس کی انفارمیشن ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کے آئی اینڈ آئی ڈپارٹمنٹس کو فراہم کررہے ہیں جس سے ان بزنس مینوں کی بینکوں میں ساکھ اور تعلقات خراب ہورہے ہیں۔ ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے حال ہی میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کی میٹنگ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ 2785 بزنس مینوں کی منی لانڈرنگ کی انکوائری میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے ہیں۔ فیڈریشن نے اس سلسلے میں چیئرمین ایف بی آر کو ایک خط بھی لکھا ہے کہ حقیقی ٹیکس پیئرز جو باقاعدگی سے اپنی بینکنگ ٹرانزیکشن ظاہر کرکے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرارہے ہیں، کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا اور ممبر اِن لینڈ ریونیو خواجہ تنویر کے اس معاملے میں مثبت رویئے کی تعریف کی اور یقین دلایا کہ فیڈریشن معیشت کو دستاویزی بنانےکیلئے حکومت کی ہر کاوشوں کو سپورٹ کرے گی۔ فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے اضافی امپورٹس کو کنٹرول کرنے کیلئے لگژری اشیا کی امپورٹس کی حوصلہ شکنی کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو فنانسنگ کی ضرورت پر زور دیا۔ میں نے گورنر اسٹیٹ بینک کے نجی شعبے کے قرضوں میں 67.5 فیصد اضافے کو خوش آئند قرار دیا جو گزشتہ سال 446.5 ارب روپے سے بڑھ کر اس سال 748 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں سی پیک کے پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ شامل ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے اپنی اور حکومت کی ترجیحات میں اونچی گروتھ، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کا فروغ، زرعی، ہائوسنگ اور تعمیرات کے شعبوں میں پھیلائو اور پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا 20 فیصد ہدف حاصل کرنے کا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایگزم بینک دسمبر 2017ء سے کام شروع کردے گا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ FMU اسٹیٹ بینک کا نہیں بلکہ وزارت خزانہ کا اسٹیٹ بینک میں ایک ڈپارٹمنٹ ہے اور یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں وزارت خزانہ سے بات کریں گے۔ پاکستان اور ایران کے مابین بینکنگ چینل نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک سے اشیا اسمگل ہورہی ہیں۔ گورنر نے بتایا کہ بینکنگ چینل کے ذریعے ادائیگیوں کے معاملے پر اسٹیٹ بینک اور ایران کے مرکزی بینک کے مابین جلد ہی معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد پاکستانی بینک ایرانی بینکوں سے ایل سی کے ذریعے تجارت کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف شور ٹریڈنگ کی اجازت دینے کے معاملے پر بھی غور کررہا ہے۔ گورنراسٹیٹ بینک نے بتایا کہ سرمائے کو وطن واپس لانے کیلئے ایمسنٹی اسکیم پر کافی کام ہوچکا ہے اور اس اسکیم کو فیڈریشن اور چیمبرز کی حمایت حاصل ہے۔ میں نے وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال بالخصوص کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان کی وجہ سے بے شمار بزنس مینوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کردیا تھا لیکن اب امن و امان کی بہتر صورتحال کی وجہ سے وہ اسے واپس لانا چاہتے ہیں اور گورنر سندھ کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی ایمنسٹی اسکیم کیلئے وزیراعظم کو دی گئی سفارشات کے مطابق اس اسکیم سے ملک کو 20 ارب ڈالر کا زرمبادلہ اور 300 ملین ڈالر کے اضافی ریونیو حاصل ہوں گے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان میں مکانات کی کمی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیونکہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو خرید و فروخت تک محدود کردیا گیا ہے۔انہوں نے بینکوں کو ہائوسنگ سیکٹر فنانسنگ کی ضرورت پر زور دیا۔ طارق باجوہ نے کہا کہ پاکستان کو صنعتی معیشت کے بجائے خدماتی معیشت بنادیا گیا ہے، ایس ایم ایز کو ترقی دیئے بغیر انڈسٹریل گروتھ ممکن نہیں، ایس ایم ایز کے بعد زراعت پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قارئین! یاد رہے کہ ہماری ملکی معیشت میں سروس سیکٹر کا حصہ بڑھ کر 60 فیصد جبکہ زراعت اور صنعت سکڑ کر 20,20 فیصد رہ گئے ہیں۔ ہمیں سروس سیکٹر کے بجائے زرعی اور صنعتی سیکٹر کو فروغ دینا ہوگا بصورت دیگر ملک ایک ’’ٹریڈنگ اسٹیٹ‘‘ بن جائے گا۔

تازہ ترین