• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق جو پالیسی بیان دیا ہے، وہ غیر متوقع یا سرپرائز نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیان کو نئے حالات کے تناظر میں سمجھنا چاہئے کیونکہ اس سے کچھ تشویش ناک پہلو سامنے آتے ہیں اور پالیسیوں کے خدوخال ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کی تباہی اور اسکے نتائج کے بعد دنیا کا خواب تھا کہ اگلی صدی امن، آزادی اور خوشحالی کی صدی ہو گی۔ دنیا اب جنگ و جدل کے بعد تسخیرِکائنات میں اپنی ساری کاوشیں صرف کرے گی۔ بھوک افلاس کے خلاف جدوجہد کرے گی مگر اے بساء آرزوکے خاکشیدہ۔ دنیا اب زیادہ ایٹمی ہے خطرے کے پریشر پوائنٹ بہت ہیںاب پوری دنیا زیادہ عذاب میں مبتلا ہونے جا رہی ہے اور ہر آنے والا دن ہمیں تباہی سے زیادہ قریب لے جا رہا ہے۔
صورت حال کے معروضی تجزیے کے لئے سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ امریکہ میں حکومت ڈیمو کریٹس کی ہو یا ری پبلکن کی، وہاں بارک اوباما جیسا ترقی پسند اور دانشور سیاستدان صدر ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ جیسا جذباتی اور دائیں بازو کا قوم پرست تاجر صدر ہو، بنیادی پالیسیاں امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اپنے ووٹرز سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر جلد سے جلد امریکی افواج کو افغانستان سے نکال لیں گے لیکن اب وہ افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی بات نہیں کر رہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ ان کی وجہ سے امریکی پالیسیاں زیادہ جارحانہ ہوں گی۔ یہ تاثر بھی منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا ہے، جو غلط ہے۔ اس کا ثبوت صدر ٹرمپ کا افغانستان، پاکستان اور ایشیاسے متعلق حالیہ بیان ہے، جو انہوں نے ورجینیا میں 21 اگست کو فورٹ مائیر میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ صدر ٹرمپ کاکہنا تھا کہ ’’ ہم زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہ سکتے کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ جنت بنا رہے۔ اس صورت حال کو فوراً تبدیل ہونا ہو گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ امریکہ پہلے بھی پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو امداد دینے کا طعنہ دیا۔ یہ طعنہ ہم پہلے بھی سنتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس خطے میں بھارت سے امریکہ کی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں اضافے کا عندیہ بھی دیا۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ بھارت کی طرف امریکہ کا جھکاؤ بہت پہلے ہو چکا ہے۔ اب یہ کھل کر آگیا ہے کہ سائوتھ ایشیا میں ہندوستان کی اہمیت کو سب کو سمجھنا چاہئے۔
نئی اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے خطے سمیت پوری دنیا کی سیاست تبدیل ہو رہی ہے۔ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ 70 سال میں پہلی مرتبہ پاکستان غیر اعلانیہ اور عملی طور پر امریکی کیمپ سے باہر نکل رہا ہے۔ پاکستان کا یہ فیصلہ شعوری ہے یا لاشعوری یا پاکستان کو امریکی کیمپ سے باہر دھکیلا گیا ہے ؟ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن جو کچھ ہو چکا ہے، اس کا ایک بڑا سبب علاقائی اور عالمی سیاست میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلیاں ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) اور ساتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو ) جیسے فوجی اتحادوں کا رکن تھا اور اس خطے میں امریکہ اور مغرب کا کمیونزم کے خلاف اگلے محاذوں پر لڑنے والا اتحادی تھا۔ آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن ( نیٹو ) سے باہر یعنی نان نیٹو سب سے بڑا اتحادی کہتے ہیں اور امریکہ یہ دھمکی بھی دے رہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر دیا جائے گا لیکن امریکہ بھی یہ حقیقت جانتا ہے کہ پاکستان اس کا اتحادی نہیں رہا ہے۔ بوجودہ امریکہ پاکستان کے ساتھ شکوک و شبہات پر مبنی تعلقات ختم بھی نہیں کر سکتا۔
دنیا میں ہونے والی نئی صف بندیوں کا اصل محرک ابھرتی ہوئی نئی سیاسی طاقتیں ہیں، جن کی قیادت چین کر رہا ہے۔ چین کے علاوہ روس، ایران، جاپان، پاکستان، مشرق وسطی کی کچھ ریاستیں خصوصاً کویت وغیر شامل ہیں نئے سیاسی اور اقتصادی بلاک بن رہے ہیں۔ پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے، جو گزشتہ سات عشروں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں تھی۔ مشرق میں بننے والے نئے بلاکس میں پاکستان کا کردار بھی بہت اہم ہو گیا ہے۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اہم حصہ پاکستان چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چین، روس، ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک تشکیل پذیر بلاک کے پیش نظر خطے میں اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ بھارت اور جاپان کو چین کی بالادستی سے خوف زدہ کرکے اس بلاک میں شمولیت سے کسی حد تک روک دیا گیا ہے۔ امریکہ نے بھارت سے تعلقات اس قدر زیادہ گہرے بنا لئے ہیں کہ وہ بھارتی اسٹیبشلمنٹ کی پاکستان مخالف پالیسیوں کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔ اس صورت حال نےپاکستان کو امریکہ سے شاکی کیا ہے اور پاکستان کو ادھر ادھر دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان کے امریکی کیمپ سے نکلنے کے دیگر علاقائی اور بین الاقوامی اسباب ہیں۔ بہرحال پاکستان اب امریکی کیمپ میںاس طرح نہیں رہا جس طرح 2000 کی دہائی تک تھا۔ اس تبدیل شدہ صورت حال میں صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے لئےمسائل اور مشکلات پیدا کرے کیونکہ پاکستان اس خطے میں ہونے والی نئی صف بندی اور تشکیل پذیر نئے بلاک میں اہم کردار کا حامل ہے۔ سب سے پہلے چین نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل ظاہر کیا اور پاکستان کا دفاع کر کے اس کا اظہار کیا کہ چین نئی دنیا کی قیادت کے لئے اب تیار ہے۔ اس کے بعد روس بھی چین کے بیانیہ میں شریک ہو گیا۔ ایران نے بھی پاکستان کا دفاع کیا۔ حد تو یہ ہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی صدر ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی۔ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کی بھارتی اور امریکی مشترکہ حکمت عملی کے برعکس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ میرے خیال میں امریکہ پاکستان میں کمبوڈیا اور ویت نام جیسی کارروائی یا فوجی مہم جوئی نہیں کرے گا۔ براہ راست جنگوں کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگنے کا بھی امکان کم ہے اور پاکستان کو سفارتی دباؤ میں لانے کی پالیسی بھی امریکہ شاید اختیارنہیں کرے گا کیونکہ امریکی اور اتحادی افواج کو کمک فراہم کرنے کا واحد زمینی راستہ پاکستان ہے۔ پاکستان کا یہ موقف کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے، کسی حد تک درست ہے کیونکہ امریکہ اپنے عوام کو افغانستان کی طویل اور عوام کی نظر میںلاحاصل جنگ کا جواز مہیا کر رہا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے جنگ میں ناکامی یا کامیابی کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے مقاصد حاصل کر رہی ہے۔ امریکی شاید یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ طالبان، القاعدہ اور داعش جیسے گروہ ختم ہوں کیونکہ ان کی موجودگی ایک بڑے بین الاقوامی ایجنڈے کے لئےضروری ہے۔
افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کے لئے امریکہ کی نام نہاد نئی لیکن اصل میں پرانی پالیسی کے بدلے ہوئے حالات میں پاکستان پر جو اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، وہ مزید افراتفری اور بدامنی کی صورت میں ہو سکتے ہیں کیونکہ عالمی سیاست اور جنگیں غیر ریاستی عناصر یعنی انتہا پسند گروہوں کے ذریعہ ہوتی ہیں۔ اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ مخالف بلاک میں شامل ممالک کا انحصار ان غیر ریاستی عناصر پر بڑھے گا۔ خدشہ یہ ہے کہ نئی صف بندی میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے والے پاکستان کو اس نئے تصادم کا میدان بناسکتے ہیں۔ پاکستان میں نئے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے ایران جیسی صورت حال نہیں ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ پاکستان کوعرب کے بعض ممالک جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ بدلتے ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں ملک کی داخلی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو فوی طور پر مل بیٹھ کر اپنی صورتحال کا ادراک کرنا ہے۔ پوری دنیا میں تبدیلیوں کو دیکھنا چاہئے اور ایک مستقل بلکہ ایک سے زیادہ ـتھنک ٹینک بنانے چاہئیں۔ اس پر کام کریں اور ہر لمحہ تبدیلی کا احاطہ کرتے رہیں۔

تازہ ترین