• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکیو! اپنے گھر واپس جائو، پوری دنیا یک زبان، پکار رہی ہے۔ معاملہ اتنا، ’’امریکہ کسی طور پاک چین اقتصادی راہداری بننے نہیں دے گا جبکہ چین ہر طور بنا کے چھوڑے گا۔‘‘ امریکہ نے خوفناک جنگ کئے بغیر گھر واپس نہ جانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ تین دہائیوں سے مسلم دنیا میں گھسا، ہنستے بستے درجنوں ممالک برباد کر چکا۔ یقین کامل تھا کہ امریکہ، افغانستان سے کبھی نہیں واپس جائے گا۔ ہزار برس کا سامان لے کر آیا ہے۔ پہلے دن سے آگاہی تھی، واپس جانا ہوتا (سانحہ نائن الیون فقط بہانہ) تو آتا ہی نہ۔ کیا کیا جائے، ذاتِ باری تعالیٰ ’’فساد فی الارض‘‘ کا فریضہ امریکہ کو تفویض کر چکی کہ بالآخر بھیانک انجام سے دوچار کرنا ضروری تھا۔ امریکہ پچھلے 20سالوں میں سوڈان، صومالیہ، افغانستان، عراق، یمن، مصر، لیبیا، شام سمیت درجنوں ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا، کئی ممالک آج رہنے کے قابل نہیں۔ مضبوط فوج اور ناقابل تسخیر دفاع کی غیر موجودگی میں وطن عزیز کا حشر نشر بھی یہی کچھ رہنا تھا۔ کتنی دفعہ دہرائوں، گلا پھاڑوں کہ روس کی ٹوٹ پھوٹ پر پاکستان ہی وہ ملک جو سب سے پہلے امریکہ کی آنکھوں میں ’’جچ‘‘ گیا۔ طے کر لیا کہ طاقت پکڑنے سے پہلے چین کو اگر گھیرنا ہے تو پاکستان کو تگنی کا ناچ نچوائے، نتھی کر رکھنا ہے۔ مانا کہ ہمارا دفاع مضبوط، ہمارے عسکری ادارے قابلِ فخر، اس کے باوجود امریکی یلغار کا سدباب سیاسی استحکام نے کرنا تھا۔ کیا وجہ کہ نادیدہ قوتوں کو سیاسی استحکام ان حالات میں بھی نہ بھایا۔ کیا یہ وقت نواز شریف کی نااہلی کا مناسب تھا؟ کون سمجھائے؟ سیاسی عدم استحکام نے سب سے پہلے اداروں کو کمزور کرنا تھا۔ اگر کوئی شک تھا تو آج کے دن ناتجربہ کار حکومت کا قیام، جبکہ صدر ٹرمپ، پاکستان کے خلاف اعلان جنگ فرما چکے، بدترین سیاسی انتشار اور ارتعاش کے لئے ایسے دن کیوں چنے گئے؟ ایک طرف نئے نویلے ناتجربہ کار وزیر اعظم دوسری طرف تجربہ کار سرتاج عزیز، زیرک ذی فہم دانشمند چوہدری نثار اور دفاعی معاملات سے 3سال سے نبرد آزما رہنے والے خواجہ آصف اور سی پیک ماسٹر احسن اقبال کا اپنی اپنی وزارتوں سے علیحدہ ہو جانا، چہ معنی۔ کیا دوران لڑائی گھوڑوں کی تبدیلی مناسب تھی۔ سونے پر سہاگہ، ملک کی مضبوط ترین سیاسی جماعت کے پہلے سے زیادہ مضبوط رہنما نواز شریف طاقت اور سازش کے سرچشموں کے خلاف خم ٹھونک کر میدانِ عمل میں، حکومت اور اپوزیشن دونوں قبضے میں، اعلان جنگ کر چکے۔ زخم خوردہ نواز شریف تنگ آمد بجنگ آمد، اپنی سیاست کو کسی صورت قربان کرنے پر تیار نہیں۔ عمران خان پارٹی بمع دیگر دیہاڑی داروں کا ثانوی حیثیت اختیار کرنا کسی صورت بہتر نہیں۔ نواز شریف نے جن طاقتوں کو چیلنج کر رکھا ہے، عمران خان وغیرہ برضا و رغبت انہی قوتوں کا مہرہ اور بغل بچہ ہی تو تھے، چنانچہ رول نے مختصر ہونا کہ نواز شریف امپائر سے لڑنے کی ٹھان چکے ہیں۔ لامحالہ اصلی اپوزیشن نواز شریف ہی تو ہیں۔ نواز شریف کے پاس کوئی چوائس ہے بھی نہیں گھائو گہرا ہے۔ حالات دگرگوں، ملک کی چولیں ہلنی لازمی، ایسی سیاسی کسمپرسی میں ٹرمپ دھمکی کا سدباب کون، کیسے اور کیوں کرہو پائے گا؟ کیا ایسے حالات جان بوجھ کر پیدا کئے گئے تاکہ امریکہ اپنی من مانی کر پائے، سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھائے۔ تکلیف اتنی کہ سب سے زیادہ متاثر، ریاستی ڈھانچے اور افواجِ پاکستان نے ہونا ہے۔ ایسا سیاسی عدم استحکام کئی دفعہ نقصان پہنچا چکا ہے۔ حالت جنگ میں مملکت بآسانی ٹوٹ گئی۔ موجودہ بلوچستان کے سیاسی حالات کو ہی جانچ پرکھ، الٹ پلٹ لیں۔ عسکری قیادت کے سینئر جرنیلوں کی اکثریت پچھلے30سالوں میں مختلف حیثیتوں اور موقعوں پر بلوچستان میں تعینات رہی۔ عسکری قیادت سے بہتر بھلا کون جانتا ہے کہ سیاسی ابتری اور عدم استحکام میں صوبے کے سیکورٹی معاملات بمع کمانڈ اور کنٹرول کتنے متاثر رہے۔ کھرا سپاہی لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض بآسانی بتا سکتے ہیں کہ عدم استحکام کی غیر موجودگی میں وطنی دفاع اور اندرونی سیکورٹی کا حصول جان جوکھوں کا کام تھا۔ ملکی سطح پر برعکس رویہ کیوں اختیار کیا گیا؟ کیا آنے والی ہونی کا ادراک نہیں تھا؟
سیاسی دیہاڑی داروں، مفاداتی، سازشی ٹولہ کی ذہنی استطاعت پر کبھی ناز نہ تھا۔ مفاداتی ٹولہ بطور مہرہ 2014 سے مملکت کے سیاسی استحکام کے درپے ہے۔ 2014 سے وجود میں آنے والے سطحی تخریبی ایجنڈے میں امریکہ نے نہ صرف بھرپور حصہ ڈالے رکھا، مہروں کو باقاعدہ استعمال کیا۔ ’’مفروضہ ایک ہی نواز شریف نے اگر چینی ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا دیئے تو ناقابل تسخیر ہو جائے گا۔‘‘ آج نواز شریف پہلے سے زیادہ مضبوط جبکہ ریاست سیاسی ابتری اور افراتفری کی لپیٹ میں ہے۔ اہل وطن جان چکے کہ سی پیک کا راستہ روکنے میں مفاداتیے امریکہ کے آلہ کار بنے رہے۔ امریکہ نے کمال بے باکی سے سوشل میڈیا بمع قومی میڈیا کو ساتھ یارومددگار بنایا۔ عرصے سے اقتصادی راہداری اور چین کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ جاری ہے،’’چین پاکستان پر قبضہ کرنے کو ہے، نئی ایسٹ انڈیا کمپنی داخل ہو چکی ہے۔ چینی مصنوعات پاکستانی صنعت و حرفت کی تالابندی کر دیں گی، چینی فوجی اڈے بنانے میں مستعد، کئی لاکھ فوجی آ چکے۔‘‘ پچھلے کئی مہینوں سے امریکہ اپنے حواریوں کے ذریعے پاکستان میں چین کا ناطقہ بند کرنے میں مستعدہے۔ خیال اغلب کہ کئی طریقے سے چین کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جانی تھیں۔ پاکستان کو یکسوئی سے اپنے تابع لانا تھا۔ کوئی شک نہیں سانحہ نائن الیون کا پردہ عنقریب چاک ہونے کو ہے۔ معلوم ہو جائے گا کہ سب کچھ چین کو گھیرنے کا منصوبہ ہی تو تھا کہ دنیا پر قبضہ مستحکم کرنا تھا۔ پہلے ہلے میں پاکستان کو ناقابل استعمال، ناکام، بدحال ریاست بنانا تھا۔ افغانستان کو تباہ و برباد رکھ کر پاکستان تک فساد کو رسائی اولین ترجیح تھی۔ پاکستان میں انارکی، افراتفری، خانہ جنگی، افراط و تفریط باہمی تصادم کیا کچھ نہ متعارف کروایا گیا۔ رٹ لگا رکھی ہے، سانحہ نائن الیون سے بہت پہلے 1988سے، امریکہ وطن عزیز کو اپنے ریڈار میں لے چکا تھا۔ جاننے کے لئے راکٹ سائنس درکار نہیں کہ چین کی بحرہند تک رسائی بلکہ سست بارڈر پر روکنا تھا۔ جیسے ہی 1990میں بھارت کے روس سے 20سالہ دفاعی معاہدہ نے مدت پوری کی،امریکہ نے پلک جھپکتے بھارت کو اپنے مفادات سے وابستہ کیا، یک جان دو قالب، پاکستان کی جان کے درپے ہیں۔ پچھلے30سال سے امریکہ مکاری سے چھڑی اور گاجر کے ساتھ پاکستان کو ہانکتا رہا۔ ساری تدبیریں ناکام رہیں۔ چین یکسوئی سے گوادر تک رسائی اور نئی اقتصادی معرکے کامیابی سے طے کر رہا تھا۔ چنانچہ حالیہ دھمکی ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ امریکہ نے طے کر لیا کہ وہ چین کو روکنے کے لئے اب ہر انتہا تک جائے گا۔ کیا قیامت کی گھڑی آن پہنچی ہے؟
اللہ سے بڑا مددگار کون؟ پاکستان پہلی دفعہ اکیلا نہیں۔ چین اپنے گردو نواح میں حتی المقدور طاقت پکڑ چکا ہے۔ ٹرمپ کی تقریر کا پہلا فوری جواب چین ہی نے تو دیا، ’’خبردار! پاکستان کے ساتھ ہمارے تزویراتی مفادات وابستہ ہیں۔‘‘ مطلب چین ہر انتہا تک جائے گا۔ روس نے بھی دیر نہ کی، پاکستان سے اپنی وابستگی ظاہر رکھی۔ ایران نے سخت ترین جارحانہ انداز میں مذمت کی۔ تھکے ہارے وطنی دانشور درس دیتے رہ گئے کہ ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ کہاں گئے امریکی رکھیل پاکستان کو زدوکوب کرنے والے، آج بھارت تنہا جبکہ ہماری دہلیز پر موجود بڑی طاقتیں بمع ایران، ترکی کندھے سے کندھا ملائے ہمارے ساتھ کھڑی ہیں۔ دوسری طرف، کل ہی بھارتی سپہ سالار کا بیان کہ چین میانمار، مالدیپ، سری لنکا اور پاکستان کے ساتھ مل کر بھارتی سیکورٹی کے لئے خطرات پیدا کر چکا ہے،تنہا کون؟
اسٹیج سج چکا ہے، اگلے چندسال کٹھن بلکہ غضبناک ضرور ہیں، بد قسمتی ہی ہو گی اگر امریکہ پاکستان پر حملہ آور ہوا۔ پاکستان ہمہ وقت منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار، چین عرصے سے سائوتھ چائنا سمندر اور پاکستان حدود میں امریکہ کی تاک میں گھات لگائے منتظر۔ روس کا دوبارہ طاقت پکڑنا دوآتشہ جبکہ ایران اور ترکی کی جیولوجیکل پوزیشن ایسی کہ امریکہ کا جنگجویانہ سفر پرخطر اور کٹھن رہے گا۔ امریکہ کی اپنی تباہی کا پیش خیمہ ہی ہو گا۔
عالمی پکار ایک ہی امریکیو! خدا کے واسطے گھر واپس جائو، قیامت کی گھڑی کو ٹلنے دو، امریکی عوام کی بہتری بھی اسی میں ہے۔2009میں جنرل کیانی کی بنام صدر اوباما دستاویز3.0کا لب لباب بھی یہی تھا، ’’امریکیو! اپنے گھر واپس جائو۔ دنیا کو مزید برباد نہ کرو کہ خود برباد ہو جائو گے۔‘‘ پاکستان کے مہربانوں سے اتنی گزارش کہ خدارا سیاسی جماعتوں میں رخنے ڈالنے کی بجائے حتمی قومی مصالحت کے جتن کرو، سب کو ایک صفحے پر لائو کہ وقت متحد ہونے کا ہے، تفرقہ بازی کا نہیں۔ مزید سن لیں! نواز شریف کو مطمئن کئے بغیر ہرجتن، ہر کارِ خیر بیکار، مفاد پرستی اور بدنیتی صاف چھلکے گی۔ قیامت کی گھڑی آن پہنچی، قومی اتحاد وقت کی ضرورت، مفاہمت مہربانوں کا ہی فائدہ۔ وگرنہ داستان نہ ہو گی داستانوں میں۔

تازہ ترین