• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’افغان، پاکستان پالیسی کے ریویو‘‘ کے بعد اپنی حکمت عملی اور بھارت۔ امریکہ تعاونی رول کے اعلان نے 22؍اگست کو اسلام آباد میں تو ہیجانی کیفیت اور حیرانی کی صورت حال ضرور پیدا کی لیکن بیجنگ اور ماسکو میں ٹرمپ کا یہ اعلان خلاف توقع ہرگز نہیں تھا۔ چونکہ ہماری خارجہ پالیسی ایڈہاک ازم، آمروں اور حکمرانوں کی سیاسی اور ذاتی ضرورت اور امریکی تابعداری کے تسلسل کے ستونوں پر قائم چلی آرہی ہے لہٰذا تخلیقی ڈپلومیسی متبادل ذرائع، خود انحصاری کی تلاش کو غیرضروری قرار دے دیا گیا۔ اقتدار پر مضبوط گرفت کے ایام میں پرویز مشرف امریکہ کے دورے پر آئے۔ پاکستانی سفارت خانہ واشنگٹن کی پرانی عمارت میں پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستان کا وقار اتنا بلند کردیا ہے کہ وہ جب چاہتے صدر بش سے بات کرلیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان سے گفتگو کرلیتے ہیں۔ انہوں نے تو اور بھی کافی کچھ کہا جومیڈیا کی فائلوں میں ہے۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے سینئر صحافی کی طرف دیکھا اورہم معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پھرنوٹس لینے میں مصروف ہوگئے مگر نہ تو ان کے معاون بریگیڈئیر راشد قریشی نے کچھ کہا اور نہ ہی کسی سفیر اور سفارت کار کوجرات ہوئی کہ یہ آگاہی دے دیں کہ صدربش اور کوفی عنان آپ کو پاکستان کی وجہ سے یہ وقار بخشتے ہیں۔ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ جناب وہ آپ کا فون اس لئے وصول کرلیتے ہیں کہ آپ نے ملک پاکستان کی خود مختاری، سرزمین اور وقار کو ان کے ہاتھوں میں بطور تحفہ دے رکھا ہے۔ اب جو حقائق عوام کے سامنے آرہے ہیں وہ اس بات کی شہادت ہیں یہ تلخ حقائق پھرسہی فی الحال تو موجودہ پاک۔ امریکہ صورت حال، بھارتی تیاریوں اور افغان حکمرانوں کے رویے سے پیدا شدہ ماحول اور ممکنہ خطرات سے کس طرح ڈیل کیا جائے؟ پاکستانی حلقوں میں دانشورانہ رائے کے حامل حضرات امریکی وکالت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کا یہ ایک صرف بیان ہے کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ محض دبائو کا ایک طریقہ ہے پاکستان کے لئے جنگ کا نوٹس نہیں ہے۔ دراصل یہ حلقے پاکستانی قیادت کو ممکنہ خطرات پر توجہ کی بجائے محض امریکی خوشامد کی راہ پر قائم رکھنا چاہتے ہیں میری رائے میں پاکستانی قیادت کو ممکنہ خطرات کی تیاری مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ کرتے رہنا چاہئے۔ ڈائیلاگ تو جنگ کے دوران اور انجام کار بھی ہوتا ہے۔ بقول امریکی صدر ریگن (TRUST BUY VARIFY) مشرق وسطیٰ میں عراق، شام، لیبیا کی صورت حال اور دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں ان ملکوں کے شہریوں اور شہروں کی تباہی کے مناظر آپ کے سامنے ہیں۔ اب انسداد دہشت گردی کے عنوان سے پاکستان کا رخ کرتے ہوئے اس کے ازلی دشمن بھارت کو دہشت گردی کے خلاف ایک بھی گولی چلائے بغیر افغانستان پر برتری اور وسائل پر قبضہ کے ساتھ پاکستان کو اپنا باجگزار بنانے کی آفر بھی دی جارہی ہے لہٰذا ممکنہ خطرات اور سازشوں کی تصدیق و تیاری کئے بغیر محض ڈائیلاگ کے لئے کوشش کرنا مناسب نہیں۔ صدر ٹرمپ تو بھارت کے دورے پر جانے والے ہیں اور پاکستان سے مذاکرات کے لئے محض ایک اسسٹنٹ سیکرٹری لیول کی نمائندہ پاکستان بھیجنے کا مطلب کیا ہے؟ بھارت کے آرمی چیف کا سی پیک اور پاکستان مخالف بیان بھی سنجیدہ نہ لیا جائے؟ میں ڈائیلاگ بلکہ مسلسل ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین رکھتا ہوں لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ہر ملک امریکہ سے ڈائیلاگ کے لئے فوراً تیار اس لئے بھی ہوجاتا ہے کہ امریکہ سپر پاور ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امریکہ سے ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کو حل کرلیا جائے۔ ڈائیلاگ کے موثر پارٹنر بننے کے لئے طاقت اور تیاری ضروری ہے پاکستان کے پاس اس ناموافق صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا آپشنز موجود ہیں؟ (1) صدر ٹرمپ سیاسی طور پر یکے بعد دیگرے داخلی بحرانوں کی زد میں ہیں۔ ڈیموکریٹ اراکین کانگریس سیاسی مخالف ہیں تو خود ری پبلکن پارٹی کی سیاسی اور پارلیمانی قیادت بھی ٹرمپ کے خلاف بیزاری اختلاف اور لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے۔ لہٰذا پاکستان کو ایک مضبوط اور مدلل انداز میں موقف تیارکرکے ایسے سنجیدہ اور موثر ڈائیلاگ کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کے وفد کو امریکی اراکین کانگریس سے ملاقاتیں کرکے صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی اور نئی حکمت عملی کے امریکہ کو ممکنہ نقصانات کے بارے میں قائل کرنے کے مشن پر بھیجا جائے۔ محض ٹریول الائونس، عزیزوں سے ملاقات اور امریکیوں کے ساتھ تصاویر کھنچوانے والے حضرات ایسے وفد میں شریک نہ ہوں۔ بہت سے کانگریس مین ٹرمپ کی اس پالیسی کے خلاف متبادل موقف سننا چاہتے ہیں۔ (2)امریکی میڈیا میں وہی مدلل اور موثر موقف پر مبنی اعداد و شمار اور واقعات کے ساتھ پاکستانی موقف پیش کیا جائے ورنہ یکطرفہ طورپر بھارتی موقف اورٹرمپ کے حامیوں کی حمایت کا ماحول امریکی رائے عامہ پر چھایا رہے گا۔ اس وقت صدر ٹرمپ اور امریکی میڈیا کے درمیان جو دراڑ موجود ہے پاکستان کو اپنا مدلل، حقائق اور خفیہ حقائق پر مبنی موقف کو آگے بڑھانے کا اچھا موقع ہے۔ (3) پاکستانی سیاستدان ملک پر رحم کریں۔ اقتدار کی دوڑ نفرتوں اور ایجی ٹیشن کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والےاداروں کو اندرون ملک مضبوط کریں۔ مجھے یاد ہے کہ 1965ء کی جنگ کے ایام میں منافع خوروں، رشوت خوروں نے یہ کام چھوڑ کر عوام کو ریلیف اعتماد اور سیکنڈ دفاعی لائن بننے کا موقع دیا تھا یہ مثال دہرائی جاسکتی ہے۔ دفاع کرنے والے بیرونی مطالبات سے بے نیاز ہوکر اپنی چوکسی کا مظاہرہ کریں۔ آپ کی ایٹمی صلاحیت بھی دشمنوں کا ٹارگٹ ہے اور اندر ہی سے سبوتاژ کرنے کا ’’عراقی فارمولا‘‘ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ (4) صدر ٹرمپ کے اعلان اور پاکستان کو دھمکی کے بیان کے پانچ نکات کچھ یوں نظر آتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد، ٹائم ٹیبل مع واپسی کا کوئی اعلان نہیں ہوگا۔ طالبان کے خلاف جنگ واشنگٹن کی بجائے مقامی کمانڈر صورت حال سے ڈیل اور فیصلہ کریں گے۔ پاکستان پر کوئی نیا الزام نہیں بلکہ اوباما دور کے الزامات یعنی دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام ہے۔ بھارت افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرے گا اور افغانستان کی معاشی ترقی و تعمیر میں بھی رول ادا کرے گا۔ افغانستان میں جنگ اور فتح ،دہشت گردوں کا قتل صرف مقصد ہے۔ تعمیر و ترقی امریکی مقصد نہیں۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر افغان جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے امریکی فوج کی واپسی کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں، نہ ہی اس کے آپریشن کی کوئی حدود ہے۔
اگرطالبان کو مذاکرات کی میز پر ہی لانا ہے تو پھر جنگ کی تباہی سے قبل اپنے ڈائیلاگ میں پاکستان چین اور امریکہ کے تعاون سے ان مذاکرات کی تجویز کو آگے بڑھاکر مزید وقت حاصل کرکے مذاکرات کی سنجیدہ کوشش کر دیکھے لیکن بھارت ایسے مذاکرات ہونے ہی نہیں دے گا وہ امریکہ اور اسرائیل کی حمایت اور معاونت کے اس تاریخی موقع کو پاکستان کے خلاف کھونا نہیں چاہتا۔ (5) بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوتوں کو سفارتی بناکر خاموشی سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ کو دینے اور حقائق ظاہر نہ کرنے کی پالیسی ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوئی ہے بھارت اب کھل کر امریکی حمایت سے آپ کے وجود کے خلاف کام کررہا ہے تو پھروہ کونسی سفارتی، عملی، عسکری یا قومی مجبوری ہے کہ مشرف دور میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر خاموشی اختیار کی گئی اور عالمی برادری کو بھی ثبوت نہیں دئیے گئے اگر کسی کو یہ خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے بحرانوں کا شکارہوگئے تو بھارت اس پلان پر عمل نہیں کرسکے گا تو یہ سراسر خوش فہمی ہوگی۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے ابتدائی مراحل کے بعد بھارت کا سرپرست سوویت یونین بھی پھر بھارت کو نہیں روک سکا تھا۔ (6) اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بہتر ہوگا کہ فوج اپنی پیشہ ورانہ خصوصی ٹاسک فورس بنائے جوصورت حال سے نمٹنے کے لئے سفارشات تیارکرے۔ اس طرح سیاستدانوں اور خارجہ امور کے ماہرین کی ٹاسک فورس بھی اپنی سفارشات تیارکرے اور دونوں کی سفارشات کے امتزاج اور عملی افادیت کے تناظر میں مشترکہ قومی لائحہ عمل تیارکیا جائے۔ ٹرمپ کی دھمکی اور افغان حکمت عملی کااعلان حقیقی ہے۔ بھارت اس کا ’’بینی فشری‘‘ ہوگا۔ لہٰذا پاکستان کے لئے مضمرات حقیقی ہیں جو عملی تدارک کے طالب ہیں۔ وزیر اعظم عباسی محض ایک تقریر کی تیاری کرکے اقوام متحدہ نہ آئیں بلکہ آنے سے قبل ٹرمپ کے اعلان اور افغان پالیسی کے بارے میں کچھ عملی اقدامات کرکے آئیں تاکہ عالمی برادری کو محض تقریر سننے کی بجائے پاکستانی عمل کا کوئی خاکہ بھی پس منظر میں نظر آئے۔

تازہ ترین