• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ 2003ء میں عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کرکے اِس پر قابض ہونا چاہتا تھا اور عراق میں داخل ہونے کیلئے امریکہ کو آسان ترین راستہ پڑوسی ملک ترکی سے دستیاب تھا، امریکہ نے ترکی کو پیشکش کی کہ اگر ترکی امریکی افواج کو اپنی زمینی اور فضائی حدود فراہم کردے تو اِس کے عوض ترکی کو 20 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی مگر ترک پارلیمنٹ نے ’’پرکشش امریکی پیشکش‘‘ کو متفقہ طور پر ٹھکراتے ہوئے اپنی زمینی اور فضائی حدود امریکہ کو فراہم کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد امریکہ، کویت کے راستے عراق میں داخل ہوکر قابض ہوا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد ایک غیر ملکی صحافی نے ترک وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’امریکہ تو بالآخر عراق پر قابض ہوگیا مگر ترکی نے 20 ارب ڈالر کی امریکی پیشکش ٹھکراکر بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ ترک وزیراعظم نے مسکراکر جواب دیا۔ ’’ہم نے امریکی پیشکش کو اِس لئے ٹھکرایا کہ کل عراق کی آئندہ نسلیں ہماری طرف اشارہ کرکے یہ نہ کہیں کہ قابض امریکی افواج ترکی کے راستے اُن کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔‘‘
9/11 کے بعد افغانستان پر حملے اور قبضے کیلئے امریکہ کو پاکستان کے زمینی اور فضائی راستے کی ضرورت پڑی، اُس وقت پاکستان، افغانستان کا اتحادی تھا اور ملک میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے۔ اِسی دوران امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے 7 مطالبات پر مشتمل ایک فہرست پیش کی اور بعد ازاں ایک امریکی ٹیلیفون کال پر جنرل پرویز مشرف نے کابینہ کے اراکین سے صلاح و مشورہ کئے بغیر امریکی خوشنودی کیلئے وہ تمام مطالبات تسلیم کرلئے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جنرل مشرف نے کسی تحریری دستاویز کے بغیر بلوچستان اور سندھ کے 3 فضائی اڈے امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی جہاں سے امریکی بی 52 بمبار طیارے اڑکر افغانستان کے مسلمانوں پر بمباری کرتے رہے جبکہ امریکی ڈرون طیارے ہمارے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے رہے۔ اسی طرح میرانشاہ اور دیگر قبائلی علاقوں میں امریکی افواج کو بیسز قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی جہاں امریکی خفیہ ادارے کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور یوں پاکستان امریکی سی آئی اے کا سب سے بڑا اسٹیشن بن گیا۔
امریکہ کیلئے یہ خدمات انجام دیتے وقت جنرل پرویز مشرف نے اپنے قریبی فوجی ساتھیوں کو اعتماد میں لینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مشرف دور کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کے بقول وہ اور اُن کے دوسرے سینئر جنرلز اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان، امریکہ افغان جنگ میں مکمل غیر جانبدار رہے گا، ایک موقع پر جیکب آباد ایئرفیلڈ کو جب امریکہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی گئی تو جنرل پرویز مشرف نے ہمیں یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ ’’میں امریکہ کو کمٹمنٹ دے چکا ہوں، امریکہ بھارت کو افغانستان سے دور رکھے گا۔‘‘ اسی طرح سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل آصف نواز کے بھائی اور دفاعی تجزیہ نگار شجاع نواز نے یہ انکشاف کرکے تمام پاکستانیوں کو مزید حیرت زدہ کردیا کہ جنرل پرویز مشرف نے امریکی زمینی افواج کو بلوچستان کے ساحل پر اترنے کی اجازت دی جہاں سے امریکی افواج قندھار میں داخل ہوکر افغانستان پر قابض ہوئیں جبکہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے جنرل مشرف نے اسلام آباد میں متعین افغان سفیر عبدالسلام ضعیف کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کرکے امریکہ کے حوالے کردیا اور پاکستان میں پکڑے جانے والے القاعدہ کے600 سے زائد مشتبہ افراد کو کسی عدالتی حکم کے بغیر سی آئی اے کے طیاروں میں بٹھاکر نامعلوم مقام یا گوانتاناموبے پہنچادیا گیا۔ شجاع نواز کے بقول جنرل مشرف نے یہ سب کچھ امریکی خوشنودی کیلئے کیا تاکہ اقتدار کو طول دیا جاسکے۔ انہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ کل امریکہ افغانستان پر قابض ہوکر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کردے گا اور وہاں بھارت کا اثر و رسوخ قائم ہوجائے گا۔ بعد میں ایسا ہی ہوا، امریکہ نے بھارت نواز حامد کرزئی کو افغانستان میں لانچ کیا جس نے افغانستان میں بھارت کو لابٹھایا اور بھارت نے براہمداغ بگٹی کے ٹریننگ کیمپس کھلواکر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کی۔
پاکستان کی تمام تر قربانیوں کے باوجود آج امریکہ نے پاکستان کے تمام احسانات کا بدلہ یہ دھمکی دے کر اتاردیا ہے کہ ’’امریکہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے مگر اب امریکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر مزید خاموش نہیں رہے گا۔‘‘ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی کردار کو سراہتے ہوئے پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے اور اتحادی ممالک کا درجہ واپس لینے کا عندیہ بھی دیا ہے جبکہ مزید 4ہزار امریکی افواج افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی اور پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان کے بعد خطے میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ افغان پالیسی کے جو خدوخال بیان کئے گئے ہیں، اُن سے خطرات کی بو آرہی ہے۔ امریکہ، افغانستان میں طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے بعد افغان جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلانے کی مذموم منصوبہ بندی کررہا ہے تاکہ پاکستان میں افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرکے اِسے اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جائے اور خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ قائم ہو سکے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو بڑی حکمت اور جرات سے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا اور امریکہ پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکہ سے اب مزید کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گا۔
آج امریکہ پاکستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہا ہے اور افغانستان بھارت کی زبان بول رہا ہے، اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ہم امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے اور اپنی غیرت اور اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ آج امریکہ پاکستان کو کمزور اور بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے ۔ہم امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کو اس لئے غدار قرار دیتے ہیں کہ اس نے امریکیوں کے ساتھ مل کر امریکی سی آئی اے سینکڑوں اہلکاروں کو ویزے جاری کئے جس کے نتیجے میں اسامہ کے خلاف آپریشن کامیاب ہوا اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ کیا پرویز مشرف کی امریکہ کیلئے دی گئی خدمات حقانی سے مختلف نہیں جو غداری کے زمرے میں
آتی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو بہت زیادہ شدید نقصانات ہوئے۔ میرے نزدیک مشرف بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا حقانی جس نے پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے نقصان پہنچایا۔افغانستان میں تعینات ایک پاکستانی سفارتکار نے مجھے بتایا کہ افغانیوں کی آنکھوں میں جو نفرت پاکستان کیلئے انہوں نے دیکھی ہے، وہ کسی دشمن ملک میںنظر نہیں آئی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ نئی افغان نسل پاکستان کی طرف اشارہ کرکے یہ کہتی ہوں کہ قابض امریکی افواج پاکستان کے راستے ان کے ملک میں داخل ہوئی تھیں۔ کاش کہ ہماری قیادت نے ترکی کے دانشمندانہ فیصلے سے سبق سیکھا ہوتا۔ ہم اتنے سستے کیوں بک گئے؟ ایک ڈکٹیٹر نے اپنے مفادات کیلئے امریکہ کے ساتھ گھاٹے کا سودا کیوں کیا؟ آج جو سلوک امریکہ ہمارے ساتھ روا رکھ رہا ہے، اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

تازہ ترین