• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر جاپانی میڈیا شمالی کوریا کی بے قابو جنگی طاقت اور جنگی جنون کے حوالے سے رپورٹس تو دکھاتا ہی رہا ہے جس میں شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ئن کی جانب سے خطرناک میزائلوں اور تباہ کن ہتھیاروں کی تیاریوں کے حوالے سے خبریں جاپانی میڈیا کی ہیڈ لائن میں رہتی ہیں تاہم جاپانی عوام کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ تباہ کن ہتھیار اور خطرناک میزائل جاپان کی جانب بھی رخ کرسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپان ایک تو دنیا کا پرامن ملک ہے جو ماضی میں تو کسی سے دشمنی رکھتا ہو لیکن حالیہ زمانے میں جاپان نے ہمیشہ ہی دنیا کے ساتھ امن سے رہنے کی کوشش کی ہے ،پھر امریکہ کی جانب سے جاپان کی سلامتی کی ضمانت اور کسی بھی طرح کے خطرناک میزائلوں حتی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حملے سے بھی جاپان کو بچانے کا معاہدہ امریکہ اور جاپان کے درمیان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ جاپانی عوام چین کی نیند سوتے رہے لیکن گزشتہ رات یہ چین کی نیند بے بسی میں تبدیل ہوگئی جب شمالی کوریا نے جاپان کی جانب ایک خطرناک میزائل فائر کیا جو جاپان کی سمندری حدود سے ہوتا ہوا اس کے سمندری علاقے ہکائیدو میں گرکر تباہ ہوگیا ، شمالی کوریا کی غیر مہذب حرکت نے جاپانی حکومت اور عوام کو شدید دھچکا پہنچایا ہے ، رات دو بچے اچانک جاپانی شہریوں کے موبائل فون پر میزائل حملے کی اطلاع اور حفاظتی اقدامات کرنے کے پیغامات نے ان کو نیند سے جھنجھوڑ کررکھ دیا ، ایسے الارم اور پیغامات عموماََ زلزلوں کے حوالے سے موصول ہوتے ہیں۔ جاپانی حکومت کے لئے بھی یہ ایک پریشان کن امر تھا ، کیونکہ جاپانی حکومت اپنے عوام کی سلامتی کو بہت عزیز رکھتی ہے اور شمالی کوریاکے میزائل کا جاپانی سرحدوں سے گزر جانا کہیں دفاعی ناکامی تو نہیں ہے اس حوالے سے جاپانی حکومت کا رد عمل سامنے آنا باقی ہے ، گزشتہ دنوں ہی جاپانی قومی ٹی وی چینل نے شمالی کوریا کی جانب سے تیار کئےگئے میزائلوں کے حوالےسے ڈاکیومنٹری پروگرام نشر کیا تھا جس میں شمالی کوریا کے میزائلوں کی جدیدیت اور کسی بھی حملے میں انھیں جاپان کی جانب داغے جانے کے بعد جاپانی رد عمل کے حوالے سے بھی بتایا گیا تھا کہ شمالی کوریا کی جانب سے فائر کیے جانے والے کسی بھی میزائل کا جاپانی اور امریکی ریڈار فوری طور پر پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور شمالی کوریا سے جاپان کی جا نب پہنچنے میں میزائل کو کم سے کم نو منٹ کا عرصہ درکار ہوگا اتنی دیر میں جاپان میں نصب دفاعی میزائل نظام حرکت میں آجائے گا اور آنے والے میزائل کو مار گرایا جائے گا جبکہ پروگرام میں یہ بھی بتایا گیاتھا کہ جاپان نے دفاعی میزائل نظام نہ صرف اپنی سمندری حدود میں بلکہ اہم شہرو ں میں بھی نصب کر رکھا ہے جو فوری طور پر حرکت میں آئے گا اور شمالی کوریا کی جانب سے جاپانی حدود میں داخل ہونے والے کسی بھی میزائل کو مار گرائے گا ، اب تک جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق شمالی کوریا کی طرف سےآنےوالا میزائل جاپانی سمندری حدود میں فضا میں تباہ ہوکر تین ٹکڑوں میں سمندر میں گرا ہے جس سے لگتا ہے کہ شاید شمالی کوریا کے اس میزائل کو جاپانی دفاعی میزائل سسٹم کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے لیکن اب تک کوئی حتمی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں ، اس حوالے سے جاپان میں شہری دفاع کے ادارے بھی بھرپور کام کررہے ہیں ، جاپانی حدود میں میزائل کے داخلے کے ساتھ ہی ملک بھر میں سائرن بجادئیے گئے ، میزائل حملے کی اطلاع اور اس سے بچائو کی معلومات بھی عوام کو موبائل فون کے ذریعے فراہم کی گئیں۔ امن کے دنوں میں جاپانی سرکاری ادارے اپنے عوام کو زلزلوں اور میزائل حملوں سے بچنے کی مشقیں کراتے رہتے ہیں جس سے عوام ذہنی طور پر کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کے لئے تیار رہتے ہیں اور گھروں میں ہنگامی حالت سے نمٹنے کا کچھ نہ کچھ سامان بھی ضرور رکھتے ہیں جیسے پانی ، خشک خوراک و میڈیکل دوائیں وغیرہ ۔یہ تو جاپانی عوام کی مشکل حالات سے نمٹنے کی تیاری کی بات تھی جہاں تک جاپانی حکومت کی بات ہے تو حملے کے فوری بعد جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے امریکی صدر سے شمالی کوریا کے میزائل حملے پر خصوصی گفتگو کی اوردونوں ممالک نے شمالی کوریا کی اس حرکت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان جسے عالمی سلامتی کے لئے ممکنہ خطرہ قرار دیتا ہے اس کے لئے تو اپنی فوجیںبھی افغانستان بھجوارہا ہے لیکن پاکستان جیسے دوست ملک جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دیں ، سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار بھی نبھایا ایسے دوست کو امریکہ کھونے کو تیار ہے جبکہ دوسری جانب شمالی کوریا جیسا ملک جو امریکہ کے قریبی اتحادی جاپان (جس کی سلامتی کی ذمہ داری امریکہ نے اٹھا رکھی ہے اسکےعوض سالانہ اربوں ڈالر بھی وصول کرتا ہے)کی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ ثابت ہورہا ہے ، اس پر میزائل حملہ کردیتا ہے اور امریکہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کے خلاف کوئی کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ شمالی کوریا امریکہ کو خطے میں اپنی فوجیں رکھنے کا جواز فراہم کررہا ہے اس سے جاپان اور جنوبی کوریا کو ڈرا کر امریکہ اپنی افواج خطے میں رکھنے کے ساتھ ان ممالک سے بھاری معاوضہ بھی وصول کرتے رہناچاہتا ہے ورنہ شمالی کوریا جیسے ملک کی قیادت کو اقتدار سے الگ کرنا امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ، جب امریکہ یمن ، شام ، لیبیا ، عراق جیسے ممالک کے حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کرسکتا ہے تو شمالی کوریا کی حکومت کی تبدیلی ، فوجی آپریشن جیسے اقدام امریکہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں لیکن نہ امریکہ کو اس کی ضرورت ہے اور نہ کوئی مجبوری ، دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے امن پسندی کے جس راستے کا انتخاب کیا وہ اسے ترقی کی معراج تک تو ضرور لے گیا لیکن جاپان کی صرف تعلیم اور صنعتی ترقی نے جاپان کی مخالفت اور تاریخی دشمنیا ں دل میں رکھنے والے بہت سے دشمن ممالک کو اپنی فوجی طاقت کے ذریعے اس کو بلیک میل کرنے کا راستہ بھی فراہم کردیا ہے تاہم اب جاپانی عوام کو احساس ہورہا ہے کہ صرف تعلیم اور صنعت کے میدان میں ترقی کافی نہیں بلکہ اپنی اور اپنے عوام کی حفاظت کے لئے مضبوط فوجی طاقت ہونا بھی ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جاپانی حکومت دفاع میں خود کفیل ہونے کا فیصلہ کب کرتی ہے۔

تازہ ترین