• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جس کام کے ماہرہیں وہی کررہے ہیں۔ جب چڑیاں کھیت چُگ کر اُڑان بھر گئیں تو ہمیں پچھتاوے نے آن لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی نئی پالیسی پرملک بھر میں پھیلی ہوئی تشویش اور بھڑکا ہوااشتعال قابلِ فہم ہے، اور اس کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں پیش آنے والی تمام تر مشکلات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے غلط قدم اٹھایا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی پالیسی بے مہار ہوسکتی ہے،جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس احمقانہ پالیسی کے پیچھے بھارتی سوچ کی کارفرمائی خارج ازا مکان نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایک لاعلم شخص ہیں،اور تمام لاعلم افراد کی طرح وہ بھی سنسنی پھیلانے کے عادی ہیں۔ اُن کے جنرلوں اور لابنگ کرنے والوں نے اُن کی عالمی امور سے لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُنہیں اُسی راستے پر ڈال دیا ہے جس پر چلتے ہوئے اُن سے کہیں بہتر سوجھ بوجھ رکھنے والے صدر بھی ناکام رہے۔ لیکن ٹرمپ کو ان معاملات کی کیا خبر۔
لیکن ہمیں پتہ ہے، یا کم از کم ہمیں پتہ ہونا چاہیے تھا، لیکن گزشتہ ہفتے نیشنل سیکورٹی کی میٹنگ کے بعد حیرانی اور دکھ میں ڈوبی ہوئی پریس ریلیز سے کھوکھلا پن عیاں ہوگیا۔ وائٹ ہائوس سے آنے والے بیان پر حیرانی کیوں؟ اس سے پہلے بھی امریکہ کی طرف سے واضح سگنل آرہے تھے کہ وہ اس خطے میں سامنے آنے والی ہر مشکل، جیسا کہ دہشت گردی، دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور امن کی ناکام کوششوں کی ایک طویل فہرست، پر پاکستان کو ہی مورد ِالزام ٹھہرایا جائے گا۔
امریکہ میں موجود پاکستان کے تجربہ کار سفارت کاروں نے کئی ایک پیغامات میں پاکستانی فوج اور سویلین نمائندوں تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ جہاں تک پالیسی کا تعلق ہے،اس حوالے سے امریکہ سے کسی خیر کی خبر کی امید نہ رکھیں۔دونوں ممالک کے مابین پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کو غیر دوستانہ یا دشمن ریاست قرار دینے کا جنونی فیصلہ کر لیا ہے۔جہاں تک امریکہ کی اس بدلی ہوئی پالیسی کا تعلق ہے تو معلومات کی کوئی کمی نہیں لیکن ظاہر ہے کہ معلومات اتنی ہی درست ہو سکتی ہیں جتنا اس کی ترسیل پر کام کیا گیا ہو۔جب پالیسی پر نظر ثانی کا سلسلہ چل رہا تھا تو پاکستان میں ساری توجہ جے آئی ٹی پر مرکوز تھی کہ کس طرح حکومت وقت کو شکنجے میں کسا جائے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق، تو جو اچھے وقتوں میں بھی عادتاً مخمصے کا شکار رہتی ہو، تو اس دبائو کے عالم میں اس سے بیدار مغزی کی توقع کس طرح کی جاسکتی تھی ؟افغانستان میں امن کے دیرینہ مسئلے پر پاکستان کا بیانیہ آگے کون بڑھاتا؟جس دوران ہم ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے کارِ خیر میںمصروف تھے، بھارتی لابنگ کرنے والے آگے بڑھ کر میدان مار رہے تھے۔
حتیٰ کہ اس سے پہلے بھی پاکستان کے اندر ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر بھڑکائی گئی خودساختہ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے قومی بحث کا موضوع اُس دھارے سے کہیں ہٹا ہوا تھا، اور شاید ہی کوئی پاکستان کو لاحق اُن خطرات کے بارے میں سوچ رہا ہو جو ٹرمپ کی اوول آفس میں موجودگی سے پیدا ہونے جارہے تھے۔ جب ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو پاکستان میں کچھ حلقوںنے خوشی منائی تو ہم نے اُس وقت بھی اپنے ایک کالم میں یہ دلیل دی تھی:’’ ہوسکتا ہے کہ وہ داخلی مسائل سے وقتی طور پر جان چھڑانے کے لئے خارجہ پالیسی کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کردیں یا فوجی مہم جوئی کی راہ اپنائیں، دہشت گردی کے خلاف پوری توانائی کے ساتھ لڑنے کا نعرہ لگائیں۔۔۔ اس مرحلے پر منقسم امریکیوں کے سامنے رکھنے کے لئے کوئی مشترکہ تصور موجود نہیں، جو کہ امریکہ کو محفوظ بنانے کے لئے کامیاب خارجہ پالیسی کے سوااور کچھ نہیں۔ امریکہ سے باہر پیش آنے والا کوئی چونکا دینے والا واقعہ دو متضاد معروضات کو باہم جوڑ سکتا ہے۔ ان معروضات میں ایک تو لازمی طور پر دہشت گردی ہے جس کی ذمہ داری ٹرمپ اور ری پبلکن کے مسخ شدہ تصورات کے مطابق اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے کسی واقعہ کے پیش آتے ہی اُن کی توجہ افغانستان اور پاکستان کی طرف مڑ جائے گی۔ اس حوالے سے ٹرمپ بھی نریندر مودی کی طرح ہیںجنہوں نے اپنی قوم میں مذہبی اختلاف کی لکیر نمایاں کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا، اور اب وہ دہشت گردی کے خطرے کا شو ر مچا کراپنی قوم کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مودی کا سا طرز ِعمل اختیار کرنے والے ٹرمپ کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ بہتر ہے کہ ہم خبردار رہیں۔‘‘ یہ مضمون 2016 ء کے اختتام کے قریب شائع ہوا تھا۔
چند ماہ بعد ٹرمپ اور مودی کے دور میں بھارت اور امریکہ کے گٹھ جوڑ پر میں نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ’’واشنگٹن کی بھرپو ر حمایت حاصل کرتے ہوئے بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو ’’دہشت گردی پروان چڑھانے والی ریاست ‘‘ قرار دے دیا جائے۔ یہ اس کی بطور ایک قابل ِ اعتماد شراکت دار عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ ایسا موقع پید اکرنا چاہتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں، کو ایک عالمی خطرہ بنا کر پیش کرسکے، اور یہی بھارت کا اصل ہدف ہے۔‘‘ یہ 2017ء کا آغاز تھا۔
کم و بیش تین ماہ پہلے میں نے لکھا تھا ’’واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ حالیہ ابلاغ میں دوٹوک لہجہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ رہا ہے کہ حقانیوں کی حمایت ترک کردو، اُنہیں ہلاک کردو، اور جو تمہاری تحویل میںہیںاُنہیں ہمارے حوالے کردو۔ پاکستان کی لگی بندھی یقین دہانیوں، کہ حقانی ہماری پناہ میں نہیں، اور نہ ہی ہمارا اُ ن پرکوئی کنٹرول ہے،کا واشنگٹن پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ امریکہ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، ایچ آر میک ماسٹر نے پاکستانی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بہت سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔ اُنھوںنے خبردار کیا کہ اگر مستقبل میں حقانیوں نے کسی امریکی مفاد کو نقصان پہنچایا، یا کسی یرغمالی کو ہلا ک کیا تو وہ سخت کارروائی کریں گے۔ ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں یہ سخت کارروائی کیا ہوگی؟وہ سلالہ کی طرز پر پاکستانی چوکیوں پر بھرپور حملہ، یا اسامہ بن لادن آپریشن جیسی کسی اور مبینہ ’’کیمپس ‘‘ پر فضائی کارروائی ؟ اس سے بھی بدتر، وہ ڈرٹی بم(نیم پختہ جوہری ہتھیار) استعمال کرسکتے ہیں جس کی افغانستان میں ریہرسل کی جاچکی ہے،اورجس کے تباہ کن اثرات دیکھنے کوملے۔ ‘‘یہ جون 2017 ء کا ذکر ہے۔
چند ایک دیگر مبصرین نے بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورت ِحال کے پیش ِ نظر یرغمال شدہ میڈیا اور اس کے بہروپیوں کی مچائی ہوئی دھماچوکڑی سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی داخلی اکھاڑہ بازی بند کردینی چاہیے،لیکن صاحب، نقار خانے میں معقولیت کی آواز کون سنتا ہے۔ اور اس وقت جب واشنگٹن نے اپنے ننگے ارادے ظاہر کردئیے ہیں جس پر ’’میڈان انڈیا ‘‘ کا لیبل واضح طور پر آویزاں ہے، تو قومی وقار کو پہنچنے والی زک پر ہمارا ردعمل نہایت بے جان اور تھکا ہوا۔ ’’واشنگٹن کی حماقت‘‘ کا نعرہ لگانے سے معاملے کی سنگینی کو نہیں ٹالا جاسکتا۔ اب یہ منطق یا اخلاق کی رسہ کشی نہیں کہ کس نے زیادہ دھوکہ دیا، یا کس نے زیادہ زخم کھائے، اب ایک پاگل پن ہمارے دروازے پر کھڑا ہے ، اور اُس کے تیور واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے جنرلوں نے اس وقت اُن کی خارجہ پالیسی کی رگ بالکل بے حس کردی ہے ، اس لئے وہ خطرناک حد تک اس پالیسی کی ذمہ داری اٹھارہے ہیں جو ہمارے سیکورٹی مفاد کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے اندر کوئی کارروائی پاکستان اور امریکہ کے درمیان جنگ چھیڑ سکتی ہے۔ یہ کوئی مذاق ہے نہ بچوں کا کھیل۔
شاید موجودہ صورت ِحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جس دوران ملک کو علاقائی ایمرجنسی کا سامنا ہے ، یہ تصور اپنی جگہ پر موجود کہ اگر طرفین کی ’’افواج ‘‘ آپس میں بات چیت کریں تو قومی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ افسوس، پے درپے ناکامیوں کے باوجود یہ احمقانہ تصور ٹس سے مس ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ایوب خان کی واشنگٹن کے ساتھ دوستی تھی لیکن آخر کار اُنہیں ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ لکھنی (یا کسی سے لکھوانی ؟) پڑی جو بتاتی ہے کہ کس طرح اُن کے امریکیوں کے بارے میں رومانوی تعلقات سرد مہری کی نذر ہوتے گئے۔ ضیا الحق نے امریکیوں کی خوشنودی اور اپنے سیاسی مقاصد کے لئے ملک کو الٹا کررکھ دیا،لیکن اپنی موت سے چند ہفتے پہلے وہ یہ کہتے سنے گئے ، ’’کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا‘‘۔
جنرل پرویز مشرف بھی ضیا کے نقش ِقدم پرچلے ، بلکہ کہنا پڑے گا کہ ایک قدم آگے نکل گئے۔ وہ آنکھ بند کرکے امریکیوںکے مطالبات پر دستخط کرتے چلے گئے، لیکن جب اُن کی تزویراتی اہمیت ختم ہوگئی تو اُن کا ہاتھ بھی جھٹک دیا گیا۔ جنرل اشفاق کیانی کے امریکیوں کے ساتھ انتہائی گہرے روابط تھے ، لیکن سلالہ اور اُسامہ بن لادن آپریشن کرتے ہوئے اُنہیں مکمل طور پر بے خبر رکھا گیا۔ جنرل راحیل شریف نے امریکہ کے ساتھ اداروں کی سطح پر تعلقات بحال کیے ، لیکن اُنہیں بھی احساس ہوگیا کہ وہ ڈرون حملے، جن کی تعداد میں اضافہ ہوچکا تھا، نہیں رکوا سکتے۔ ان تمام مثالوں کے باوجود ہماری سوچ کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے کہ اگر کسی طرح سے افواج کے آپس میں تعلقات مستحکم ہوں تو واشنگٹن پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔
اب یہ بدقسمتی ہی ہے کہ کوئی اتالیق بھی ہمیں کچھ نہیں سکھا سکتا، نہ تاریخ، نہ واقعات،نہ اعلانیہ پالیسی اور نہ ہی کھلے ارادے، نہ شکست ِ آرزو۔ واشنگٹن ( یا بھارت یا کسی بھی اور ملک ) کے ساتھ روابط ہمہ جہت نوعیت کے ہوتے ہیں، نہ کہ جزوی اور محدود۔ یہ ایک کل وقتی سرگرمی ہے۔ عالمی تعلقات کا مقصد احمقانہ قسم کے ایجنڈے، جو بعد میں داخلی استحکام کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں، کی من پسند تکمیل نہیں ہوتا۔ نہ ہی اسے اخلاقی اشتعال سے مغلوب ہو کر یا جلدبازی کا شکار ہوکر سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی حقیقی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کیا ہم اپنے کھیل کھیلتے رہتے ہیں یا اپنی سرحدوں پر کھیلنے جانے والے اُس حقیقی کھیل کی طرف توجہ دیتے ہیں جس کا میدان تیزی سے سجایا جارہا ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ ڈیل کرنا آسان بہت آسان ہوتا اگر ہم اپنی ترجیحات درست رکھتے اور ہم نے اپنی تاریخ کو پڑھا اور اس سے کچھ سیکھا ہوتا۔

تازہ ترین