• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آج ارادہ تو نواز شریف کے12 سوالات اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس بریفنگ کو زیر بحث لانے کا تھا جس میں سول ملٹری تعلقات کی خرابیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ کی تجویز پر گرینڈ ڈائیلاگ ہوا تو ہم بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آئین کسی ایسی حصہ داری کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آئین کی رُو سے جس کا جو رول بنتا ہے وہ اس سے آگے بڑھنے کی کاوش نہ کرے۔ بہرحال اس سے جڑی خارجہ پالیسی کی خرابی کے مضمرات بھی اب سامنے آتے چلے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ خارجہ پالیسی قومی امنگوں اور ملکی مفادات کی مطابقت میں تشکیل پانی چاہیے جس کے لیے منتخب قیادت کے زیرک، معاملہ فہم اور مدبر اذہان کی ضرورت ہوتی ہے بصورتِ دیگر کوئی بھی قوم اس بھری دنیا میں اقوامِ عالم سے کٹتی اور تنہائی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔
پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے بہت سے امور و معاملات میں فکری ہم آہنگی کے باوجود ہر دو اقوام کی ترجیحات اپنی اپنی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر بالعموم اور سرد جنگ کے دور میں بالخصوص پاک امریکہ تعلقات میں گرمجوشی ملاحظہ کی جا سکتی ہے لیکن اب ان دنوں یہ تعلقات بڑی حد تک سرد مہری کا شکار ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کو نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود امریکہ میں بھی زیادہ سنجیدگی کا حامل خیال نہیں کیا جاتا اکثر و بیشتر امریکی میڈیا ان پر برستا رہتا ہے۔ ان کا چناؤ جس طرح ہو ا وہ بھی قطعی غیر متوقع تھا ۔ صدر براک اوباما عالمی جذباتیت کے بالمقابل جس سیانے پن کا مظاہرہ کر رہے تھے اس سے امریکیوں کو اپنی قومی دھاک نیچے جاتی محسوس ہوئی تو وہ ہیلری کی بجائے ٹرمپ کو سامنے لے آئے۔ تھیوری کے بالمقابل زمینی حقائق ہمیشہ زیادہ تلخ ہوتے ہیں انسان بالعموم سوچتا بہت اچھا ہے مگر جب اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے لگتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ خرابیاں اس سے زیادہ ہیں جتنا اندیشہ تھا۔ جنونیت یا جنگ سے کوئی بھی مہذب انسان نفرت ہی کرے گا صدر اوباما نے پوری کوشش کی تھی کہ امریکہ کو جنگی بخار یا ماحول سے نکالا جائے وہ روزِ اول سے گوانتانا موبے بند کر دینا چاہتے تھے اس کے باوجود تلخ حقائق ان کے سامنے چٹانوں کی طرح آتے رہے۔ نعرے کی حد تک تو صدر ٹرمپ نے بھی بہت تقاریر کی تھیں کہ وہ امریکی وسائل کو جنگوں میں نہیں جھونکیں گے لیکن حقائق شناس نظریں اس سلسلے میں درپیش مجبوریوں یا تلخیوں کو لمحہ بھر کے لیے فراموش نہیں کر سکتیں۔
صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا یا افغانستان و پاکستان کے لیے اپنی پالیسی کا اظہار جن الفاظ میں کیا ہے ہماری نظر میں ڈپلومیسی کے حوالے سے ان کی ضرورت نہیں تھی اتنی بڑی سطح پر ایسے جذباتی و غیر ذمہ دارانہ الفاظ قابلِ مذمت ہی نہیں خود وسیع تر امریکی مفاد کے بھی خلاف ہیں ’’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، پاکستان ہم سے اربوں ڈالر لے کر ہمارے دشمن کو پناہ دیتا ہے، دہشت گرد ایٹمی ہتھیار ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں، پاکستان نے دہشت گردوں کی مدد جاری رکھی تو اُسے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔‘‘حضور آپ کو ڈالر اتنے عزیز ہیں تو نہ دو کوئی آپ سے زبردستی تو نہیں لے جا رہا ایسی الزام تراشی کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ اپنے تحفظات پاکستانی قیادت کے سامنے رکھو، مذاکرات کے ذریعے اُن کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کرو اپنے اتحادی کو اتحادی کی عزت دو۔ آپ خطے میں جاری گرم جنگ کو ختم کرنے کی بجائے نئی سرد جنگ کو ہوا کیوں دے رہے ہیں؟ اس سے آپ کو حاصل کیا ہو گا اگر دو ممالک کی قیادتوں کو خوشی ملی ہے تو دو بڑے ممالک نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کھلے بندوں کر دیا ہے۔ بظاہر حکمت اور حماقت میں باریک سا فرق ہوتا ہے لیکن نتائج شدید ہوتے ہیں۔ کیا آپ کے اس بیان سے افغانستان کے اندر لگی آگ بجھ جائے گی یا اسے نیا ایندھن ملے گا؟
دوسری طرف ہمارے ہاں اس نوع کے بیانات کا کیا جواز ہے کہ ہم پاکستان کو امریکیوں کا قبرستان بنا دیں گے۔ ہم امریکہ کو برباد کر دیں گے، ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ جذبہ خود احتسابی کے تحت ہمیں بھی اپنے دامن میں جھانکنا چاہیے۔ ہم اپنی اعلیٰ ترین سطح سے پوری دنیا کو یہ کہتے رہے کہ بن لادن یا ملا عمر ہمارے پاس نہیں ہیں مگر وہ برآمد کہاں سے ہوئے؟ کیا کسی کو شک ہے کہ ملا منصور کو ڈرون کے ذریعے جہاں مارا گیا وہ پاکستانی سرزمین نہیں تھی؟ امریکہ بلاشبہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہم اُس کی امداد کے بغیر بھی جی لیں گے مگر ہمارا ماضی تو کچھ اور ہی رہا ہے۔ آج بھی اگر وہ محض ہماری برآمدات پر پابندی لگا دے یا ہماری کاٹن مصنوعات پر یورپ میں پابندیاں لگوا دے تو ہماری مقامی صنعت برباد ہو کر رہ جائے گی۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پابندیاں ہمارا چہرہ بگاڑ سکتی ہیں۔ اپنے ایرانی بھائیوں سے پوچھ لیں کہ معاشی پابندیوں نے انہیں کیا کچھ ماننے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارے تمام ذمہ داران کو اپنی خارجہ پالیسی میں ناکامی کی وجوہ تلاش کرنی چاہئیں، ہمسایہ ملک ایران کیلئے ہم نے اپنے برادر ملک سعودی عرب کو ناراض کیا ہے لیکن کسی بھی حوالے سے خوش ہم سے ایران بھی نہیں ہے۔ اس سے بھی بدتر صورتحال افغانستان اور بھارت کے حوالے سے ہے۔ہمیں یہ حقیقت حفظ کر لینی چاہیے کہ چین دوستی کا مطلب امریکہ دشمنی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ افورڈ کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین