• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات پر پاکستان کے عوامی حلقوں میں حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد 50 کی دہائی سے آج تک پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کئی بار وعدہ فراموشی، لاتعلقی اور مخالفانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ کی نسبت اس کے حلیف کئی یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات زیادہ خوشگوار اور پُراعتماد رہے ہیں۔ دنیا میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی میں امریکہ اور چند یورپی ممالک یقیناً آگے ہیں۔ ایشیا میں پہلے جاپان اور پھر چین کے علاوہ کوریا، ویت نام، ملائشیا نے بھی معاشی ترقی میں شان دار مثالیں قائم کی ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے پالیسی ساز امریکہ اور مغربی یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔ ہم نے ایشیائی ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات کو ایک طویل عرصے تک اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے وکیل اور جنگوں کو اپنی معاشی ترقی کا محور بنانے والے امریکہ کی خوش نودی کے طلب گار بنے رہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ بنایا جانا پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی مفاد میں تھا یا اس فیصلے کی وجوہات ہماری ذہنی مرعوبیت اور ردعمل کی نفسیات میں بھی پنہاں ہیں؟ بین الاقوامی فورسز مثلاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی زیادہ مدد امریکہ نے نہیں بلکہ پاکستان کے پڑوسی دوست ملک چین نے کی ہے۔ چین نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ مخالفانہ یا لاتعلقی والا رویہ اختیار نہیں کیا۔ جبکہ پاکستان امریکہ تعلقات میں امریکی مفادات ہمیشہ حاوی رہے۔
امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈوں کی فراہمی، لاہور میں پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سمیت دیگر کئی معاملات میں امریکہ کے پاکستان سے مطالبات بلا روک ٹوک ہوئے۔ دوسری طرف پاکستان سے امریکی مطالبات یا توقعات کو ہمیشہ امریکی قوانین کے تحت برتا گیا۔
امریکہ سے مختلف ممالک کے تعلقات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ جس ملک نے امریکہ کے ساتھ جتنی زیادہ وفاداری اور تابع داری کا مظاہرہ کیا اسے امریکہ نے اتنا ہی دبا کر رکھا۔ کئی عرب اور ایشیائی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے برعکس جن ممالک کے حکمرانوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں شخصی مفادات اور ذاتی مصلحتوں کے بجائے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھا ان ممالک میں ترقی اور استحکام آیا۔ سب سے نمایاں مثال امریکہ کے پڑوسی ملک کیوبا کی ہے۔ کیوبا کے لیڈر صدر فیڈل کاسترو ایک بہت محب وطن اور انتہائی دیانت دار شخص تھے۔ امریکہ نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے خفیہ اور اعلانیہ کئی کوششیں کیں لیکن امریکہ فیڈل کاسترو یا ان کے ملک کیوبا کا راستہ روک نہ سکا۔ فیڈل کاسترو کا جینا مرنا اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے تھا۔ انہوں نے سیاست اور عوامی عہدے کو اپنے لیے دولت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ فیڈل کاسترو کی کوئی آف شور کمپنی نہیں تھی۔ انہوں نے کیوبا سے باہر اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ نہیں کھولے، کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ فیڈل کاسترو اور ان کے اہل خانہ اپنے علاج کے لیے کیوبا سے باہر نہیں جاتے تھے۔ ان کے خاندان کے بچے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں بھی نہیں پڑھتے تھے۔ اسلامی ملکوں میں بھی ایسی دو مثالیں موجود ہیں۔ ایک ملائیشیا کے لیڈر مہاتیر محمد، دوسرے ترکی کے مقبول ترین حکمران رجب طیب اردوان۔ طیب اردوان کو ترک معاشرے کے اسلامی سوچ رکھنے والے اور دیگر معتدل مزاج طبقات کی حمایت حاصل ہے لیکن رجب طیب اردوان کی خارجہ پالیسی جذباتیت کے بجائے ٹھوس حقائق کو سامنے رکھ کر ترتیب دی گئی ہے۔
دنیا میں جمہوریت کا چیمپئن ملک امریکہ اندرون ملک جو چاہے کہتا رہے، بین الاقوامی تعلقات میں وہ اس نظریے پر کاربند ہے کہ بیرون امریکہ اصل اہمیت جمہوری یا غیر جمہوری نظاموں کی نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف امریکی مفادات کی ہے۔ جو ممالک امریکہ کے مفادات پورے کر رہے ہوں وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں یا شخصی حکومتوں پر امریکہ کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
پاکستان میں ایک طبقہ امریکہ کے ساتھ وفادارانہ اور تابع دارانہ تعلقات کو اہم سمجھتا ہے جبکہ ایک طبقہ امریکہ کو آنکھیں دکھانے اور اس کے ساتھ مکمل عدم تعاون کی پالیسی چاہتا ہے۔ میرے نزدیک یہ دونوں نقطہ ہائے نظر انتہا پسندانہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں مذہب، لسان، نسل کے تعلق کے بجائے ملکوں کے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اس کا عملی مظاہرہ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر مسلم اور عرب ممالک کے اپنے ایک برادر مسلم عرب ملک قطر کے ساتھ تنازع کی شکل میں بھی ہورہا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل و ترتیب میں جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی اور وقت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم میں اپنی فوج کے لیے محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ کسی ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے اس کے عوام اور فوج کے درمیان اعتماد کا تعلق انتہائی ضروری ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنی مسلح افواج پر بھرپور اعتماد ہے۔ اس اعتماد کو برقرار رکھنے اور اسے مزید ترقی دینے کے لیے پاکستان میں جمہوری اداروں کا استحکام ضروری ہے۔ یہ استحکام عوام اور ریاست کے سب اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ حکومت کو عوام کی جتنی زیادہ تائید حاصل ہوگی بین الاقوامی تعلقات میں اس کی پوزیشن اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی۔
خارجہ پالیسی ایک بہت نازک اور حساس معاملہ ہے۔ خارجہ پالیسی بنانے اور وقتاً فوقتاً مختلف اہم فیصلے کرنے کے لیے انتہائی ذہین، باصلاحیت، شاطر، دوربین اور دور اندیش محب وطن، معاملہ فہم اصحاب علم و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی عوامی اجتماعات میں نہیں بنائی جاتی۔ انتخابات کے دوران یا دیگر کسی موقع پر خارجہ پالیسی کے ایک دو نکات کو عوامی جذبات ابھارنے کے لیے زیر بحث لایا جانا اور بات ہے لیکن ان مواقع پر بھی خارجہ پالیسی کے لیے عوامی جذبات سے رہنمائی نہیں لی گئی بلکہ عوامی جذبات ابھار کر طے شدہ پالیسی کے چند نکات پر عوامی تائید حاصل کی گئی۔ امریکی صدارتی انتخابی مہمات میں ایسا کئی بار دیکھا گیا ہے۔ ویت نام سے امریکی فوجوں کی واپسی کا معاملہ ہو، عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا الزام عائد کرکے اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہو، افغانستان پر پہلے روسی مداخلت کے خلاف اور بیس سال بعد خود امریکی مداخلت کے نکات پر صدارتی امیدواروں نے اپنی ترجیحات عوام کے سامنے بیان کیں لیکن انتخابات جیتنے کے بعد ضروری نہیں کہ ان نکات پر عمل بھی ہوا ہو۔ تازہ ترین مثال خود ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کی ہے۔
پاکستان کو دنیا کے ہر ملک کے ساتھ اپنے مفادات کے تحت سفارتی تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیا جانا لازمی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں کا اعتراف ہونا چاہئے۔
اپنے پڑوسی مسلم ملکوں سے تعلقات کی بات ہو، امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ہو، سی پیک کی تعمیر ہو، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی جذباتیت یا امریکہ سے مرعوبیت والے مائنڈ سیٹ کے ساتھ نہیں بلکہ خالصتاً پاکستان کے مفادات کے تابع رکھ کر ترتیب دینی ہوگی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں سب متعلقہ اداروں کی بامعنی مشاورت ضروری ہے وہیں یہ بھی لازمی ہے کہ خارجہ پالیسی بنانے والے سیاست دان اور افسران امریکہ، برطانیہ، اسپین، سوئٹزر لینڈ یا عرب ممالک میں دولت جمع کرنے والے اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے نہ ہوں۔
اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ انسان کا دل وہاں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتا ہے۔

تازہ ترین