• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی وہ واحد ملک ہے جس کے عوام سے پاکستان کے عوام کے گہرے دِلی مراسم ہیں۔ اس محبت اور اپنائیت کی وجہ وہ ثقافتی بندھن ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان کشش کا باعث ہے۔ ہماری پسند ناپسند، دلچسپیاں اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی گہری مشابہت موجود ہے حتیٰ کہ ہمارے ناموں کے ساتھ اگر ذات کے القاب حذف کر دیئے جائیں تو وہ بھی ایک سے ہیں۔
اکتوبر 1923ء میں مصطفیٰ کمال نے خلافت ختم کر کے ملک کو جمہوریہ قرار دینے کا اعلان کیا اور خود اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مختلف اصلاحات نافذ کر کے ترکی کو ترقی کی راہ پر ڈالا مگر کچھ اقدامات ایسے بھی تھے جن کو نہ صرف ترکی میں بلکہ پورے عالم اسلام میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ ایک تو یہ کہ صدیوں سے جداگانہ کلچر کی حامل زبان کا رسم الخط تبدیل کر کے نئی نسل کو اپنے اثاثے سے محروم کر دیا اور دوسرا مذہب کو بالکل خیر باد کہہ دیا۔ تاہم مصطفیٰ کمال کی جمہور دوست پالیسیوں کی عوام میں بھرپور پذیرائی موجود تھی۔ اس کے بعد آنے والی ہر جمہوری حکومت فوج کے تابع رہی ہے۔ رفتہ رفتہ جمہوریت کٹھ پتلی بنتی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ جب قدرت کسی ملک اور قوم کا نصیب سنوارنے کا فیصلہ کرتی ہے تو انہیں ایسا رہنما عنایت کرتی ہے جو اپنی جدوجہد سے حالات کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ طیب اردوان کے مضبوط ارادے، وسیع النظری، پختہ یقین اور سیاسی دانش نے اسے سیاست میں قدم رکھنے کی طرف راغب کیا۔ اس نے استنبول کی گلیوں سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور پھر نہ صرف ترکی کی حکومت کا تاج اس کے سر پر سجا بلکہ وہ عوام کے دلوں پر حکومت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سفر میں اس نے قدم قدم پر آزمائشوں کا سامنا کیا اور اپنے اٹل ارادوں سے مشکلات پر قابو پایا۔ 1997ء میں طیب اردوان نے ایک جلسے میں جب یہ مصرعے پڑھے:
گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں
مسجدیں ہماری فوجی چھائونیاں ہیں
صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں
کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی
تو اس کی پاداش میں انہیں جیل جانا پڑا اور انہیں استنبول شہر کی گورنری سے بھی ہٹا دیا گیا حتیٰ کہ 2002ء کے انتخابات میں وہ امیدوار بھی نہ بن سکے لیکن جب اسی مقدمے کی روشنی میں قانونی ترامیم ہوئیں تو مارچ 2003ء میں پارلیمانی امیدوار کے طور پر سیرت شہر سے انتخابات میں حصہ لیا اور 85 فیصد ووٹ لے کر پہلے رکن پارلیمنٹ اور بعد میں وزیراعظم مقرر ہوئے۔ 2014ء سے قبل ترکی میں پارلیمانی ممبران صدر کا انتخاب کرتے تھے لیکن 2014ء میں پہلی مرتبہ صدر کے لئے بھی باقاعدہ انتخابات کا اعلان کیا گیا اور طیب اردوان جمہوری طریقے سے ترکی کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ جمہوری حوالے سے تمام ضابطوں کو نافذ کرنا چاہتا تھا۔ جب اس نے حکومت سنبھالی تو آئین کی مدد سے حالات کا رُخ موڑنے کی بجائے چپ سادھ لی۔ صرف ترکی کو مسائل سے نکالنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اس کی شب و روز کی محنت رنگ لائی اور ترکی کی سڑکوں پر خوشحالی دکھائی دینے لگی۔ اس نے ترکی کو بیرونی قرضوں سے نجات دلانے کے لئے جامع منصوبہ بندی کی۔ ترکی کے آئین کے مطابق ترک فوج کو ملک کے آئین کی سلامتی کا محافظ قرار دیا گیا ہے لیکن اتاترک سے شروع ہونے والی جمہوریت میں فوج نے ہمیشہ اپنا کنٹرول قائم رکھا اور جب کبھی کسی رہنما نے ان کی منشاء کے مطابق کام نہ کیا تو اسے فارغ کر دیا گیا۔ فوج نے 1960ء، 1980ء اور 1997ء میں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر جمہوری نظام کا راستہ مسدود کیا تو عوام نے جمہوری حکومتوں کا ساتھ دینے کی بجائے فوج کو خوش آمدید کہا کیوں کہ ان جمہوری حکومتوں نے عوام کی فلاح کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا تھا۔ طیب اردوان نے اسی نکتے پر توجہ مرکوز کی اور مقصد حاصل کیا۔ اس نے سالوں کی مسلسل محنت اور خدمت کے بعد جمہوری نظام کی مضبوطی کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے MIT کا سربراہ تبدیل کیا۔ اس اہم عہدے پر ایک سول اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ڈاکٹر فدون کو تعینات کیا۔ یہ عہدہ اس سے پہلے فوج کے پاس ہوتا تھا۔ ڈاکٹر فدون نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا تو طیب اردوان نے یک مشت چالیس جرنیلوں کو فارغ کر دیا۔ فوج نے اس عمل کو سخت ناپسند کیا اور فوج کے ایک دھڑے نے مارشل لاء کا اعلان کر دیا۔ ترک صدر کے تمام رابطے مسدود کر دیئے گئے۔ اس نے واٹس ایپ پر ایک پیغام چھوڑا کہ حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ لوگ تیزی سے گھروں سے نکلے، ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سب سے بڑی قوت عوام کے پاس ہے۔ وہی فوج جس کے سربراہ کو ترک عوام نے اتاترک یعنی ترکوں کے باپ کا خطاب دیا تھا کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ عوام کی یہ محبت کسی ایک شخص کے لئے نہیں تھی بلکہ اس نظام کی حفاظت کے لئے تھی جس نے ان کی زندگیوں کو خوشحالی عطا کی تھی ان کے ملک کا نام روشن کیا تھا۔ انہیں قوموں کی زندگی میں سرفراز کیا تھا۔ طیب اردوان کا دفتر ایک کنال کے رقبے پر قائم ہے۔ اسی سے امیر و غریب کے درمیان فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم کواپنے ملک میں جمہوریت کو توانا کرنا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو طیب اردوان کی طرح سوچنا اور ترقی کا لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملک سے طبقاتی تقسیم کو کم کرنے کے لئے واضح اقدامات کرتے ہوئے سب سے پہلے ایک نظامِ تعلیم متعارف کرائے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں 12 گریڈ تک ایک نظامِ تعلیم ہوتا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل ایک جیسے قومی احساسات اور تفاخر کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ پاکستان ابھی تک ایک قوم کے سانچے میں اس لئے نہیں ڈھل سکا کہ یہاں تعلیم اور انصاف کے پیمانے مختلف ہیں۔ تعلیمی نظام نے لوگوں کو طبقات میں تقسیم کر کے اخوت اور قومیت کو کمزور کیا ہے۔ ایک مضبوط قوم بننے کے لئے حکومت فی الفور اردو، انگلش میڈیم اسکولوں اور مدرسوں میں ایک نظام تعلیم نافذ کرے، مادری زبان کو لازم قرار دیا جائے تا کہ نئی نسل اپنے ثقافتی ورثے سے آگاہ ہو سکے، ریاست مسجدوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے کم از کم 18گریڈ کا امام مسجد مقرر کرے پھر دیکھئے اس ملک میں جمہوریت کیسے رائج ہوتی ہے۔ یاد رہے جمہوریت جمہور کے کندھوں پر سوار ہو کر آگے بڑھتی ہے۔ اگر یہ کندھے ناتواں ہوں تو کوئی بھی طاقت انہیں سہارا دے کر اپنی جانب موڑ سکتی ہے۔ اگر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو جمہوریت کی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔
یوں تو ترکی سے ہماری جذباتی، ثقافتی اور سیاسی ہم آہنگی کی تاریخ کافی پرانی ہے تاہم اس سلسلے کو حکومتی سطح پر آگے بڑھانے میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج معاشی اور تجارتی حوالے سے بھی ترکی ہمارا اہم دوست بن چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ صاحب ترکی کے نظام سیاست، طرزِ حکومت اور کارکردگی سے متاثر ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ بات ہو رہی ہے ترکی کے طرزِ حکومت کی تو یہاں بھی اگر طیب اردوان کی شخصیت کو مثال بنا کر پیروی کی جائے تو جمہوریت کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ ضرورت صرف نیک نیتی اور حب الوطنی کے جذبے کو جنون بنانے کی ہے۔

تازہ ترین