• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی کے خاتمے ، جرائم کی روک تھام اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، مگر یہ محکمہ حد درجہ بے عملی اور بے اعتنائی کا شکار ہو چکا ہے۔ 2002ء میں ملک بھر میں پولیس اصلاحات نافذ کی گئی تھیں جن میں پولیس کو آزادی سے اپنے فرائض بجا لانے کی اجازت دی گئی تھی، مگر آج بھی یہ محکمہ معاشرے کو کرائم فری بنانے میں ناکام ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اِس وقت ملک بھر میں 3لاکھ ستر ہزار سے زائد پولیس افسران و اہلکار تعینات ہیں۔ اِس کے باوجودہر روز ڈکیتی، قتل اور اقدام قتل، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، تیزاب گردی اور زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے اِس دور میں جب جرائم پیشہ عناصر ٹیکنالوجی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگے تو ان کے انسداد کے لئے محکمہ پولیس کو اربوں کا بجٹ دے کر جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا۔اس کے باجود آج بھی ہزاروں AاورBکیٹیگری کے اشتہاری ہمارے سماج میں موجود ہیں۔اِن میں ایسے خطرناک اشتہاری بھی شامل ہیں جو گزشتہ 10سے15 سال سے مفرور ہیں اور پولیس اِنکو تا حال گرفتار نہیں کر سکی۔حالیہ دنوں کچے کے علاقے میں مسلح پولیس اہلکاروں کا ہتھیاروں سمیت ڈاکوئوں کے ہاتھوں اغوا بھی اپنی نوعیت کا الگ واقعہ ہےجس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کو محض ٹیکنالوجی سے لیس کرنا کافی نہیں۔ جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور پیشہ ورانہ تربیت کے علاوہ پولیس اہلکاروں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ پہلے تو پولیس میں بھرتی کے وقت امیدواروں کے اخلاقی ریکارڈ کی چھان بین کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ مجرمانہ ذہنیت کے لوگ پولیس میں آ جائیں پھر دوران ملازمت ان کی کردار سازی کے لئے بھی باقاعدہ کورسز کا اہتمام کیا جائے۔ اس سے حقیقی معنوں میں قانون نافذ کرنے والی فورس وجود میں آئے گی جو معاشرے سے جرائم کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو گی۔

تازہ ترین