• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ صرف اس لئے مر گئی کہ جب اس کے گھر والے اسے اسپتال لے گئے تو ان کے پاس جمع کرانے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ یا پیسے جمع کرانے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ وہ دل کی مریضہ تھی اور اسے فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔ وہ اسے بروقت نہیں مل سکی۔ اسپتال والوں نے توجہ نہیں دی اور کہا کہ پہلے پیسے جمع کرائیں پھر علاج ہوگا۔ جب تک پیسے جمع ہوتے اس کی حالت بگڑتی گئی، اس نے وہیں دم توڑ دیا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد سے اسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ ہڑتال پر ہے۔ اور تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ ابھی اسی ہفتے کی بات ہے۔ اور اسی ہفتے یہ بھی ہوا کہ دو اسپتالوں نے ہیلتھ کارڈ رکھنے والے مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ کہ حکومت نے ان کے بل بروقت ادا نہیں کئے۔ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اس کی ذمہ داری اسپتالوں پر ڈالتا ہے کہ انہوں نے بل دیر سے بھیجے۔ ممکن ہے ایساہی ہو، مگر پھر وہی سوال کہ اس میں مریض کا کیا قصور؟ اور اگر مریض کی حالت نازک ہے تو پھر تو اسے لازمی طبی امداد فراہم کی جانی چاہئے۔ یہ کسی دوردراز علاقے کا ماجرا نہیں ۔ یہ سب کچھ صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پیش آیا۔ اس شہر کی اور بہت سی بدقسمتیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہاں لطیف آباد میں واقع اس ایک اسپتال کے سوا کسی اور جگہ دل کے امراض کا ہنگامی شعبہ نہیں ہے۔ سو دل کے وہ مریض جو نجی اسپتال جانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ مجبوراً یہیں آتے ہیں۔
دوسرے ملکوں میں کیا ہوتا ہے؟ یونہی تلاش کیا تو پتہ چلا ہر جگہ یہ ایک قانون تو ہے ہی کہ ہنگامی حالت میں پہلے مریض کا علاج کیا جائے۔ امریکہ میں 1986 میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق کوئی نجی یا سرکاری اسپتال کسی ہنگامی مریض کا علاج کرنے سے محض اس لئے انکار نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں یا اس کا انشورنس نہیں ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے ’’پہلے علاج ،بعد میں پوچھ گچھ‘‘ ۔ مطلب یہ کہ مریض سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا وہ علاج کا خرچ برداشت کرسکتا ہے۔ مگر یہ سب بعد میں۔ ہنگامی علاج پہلے ،یہ اس قانون کا تقاضا ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر ڈاکٹر اور اسپتال کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔
ایسا کوئی قانون ہمارے یہاں تو شاید موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو مجھ سمیت کم ، بہت ہی کم، لوگوں کو اس کا علم ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ڈاکٹروںکو پریکٹس کا لائسنس دینے والا اور انہیں ’’اخلاق‘‘ کا پابند بنانے والا ادارہ کونسا ہے؟ کیا اختیار رکھتا ہے ؟ ان پر ایک عام آدمی کیسے عمل کرسکتا ہے؟۔ ایک ادارہ ہے پاکستان ڈینٹل اینڈ میڈیکل کونسل۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس نے کتنے ڈاکٹروں یا اسپتالوں کے خلاف کارروائی کی ہے؟ کیا اس ادارے کو پتہ ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک بہت بڑا اسپتال جب چاہے ہنگامی مریضوں کو لینے سے انکار کردیتا ہے۔ اور جو مریض پہلے سے وہاں موجود ہوتے ہیں انہیں بھی گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اس شہر میں بہت سے نجی اسپتال ہیں، جہاں مریض دھکے کھاتے ہیں، اور علاج کا بھاری بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ مریض تڑپتے رہتے ہیں، ڈاکٹر کم ہیں یا اپنے کلینک پر زیادہ مصروف رہتے ہیں، اس لئے مریض پر یہاں توجہ کم ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کی تعداد بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہوا ہے کہ ایک سرکاری اسپتال میں حال ہی میں، ایک ایگزیکٹیو کلینک کھولا گیا ہے۔ اس کی لفٹ الگ ہے۔ وہاںجائیں تو لگتا ہے ایک پانچ ستارہ اسپتال میں آگئے ہیں۔ جو ڈاکٹر ایک نجی اسپتال میں ہزار پندرہ سو یا دوہزار روپے فیس لیتے تھے، یہاں ڈھائی ہزار روپے لیتے ہیں۔ جب آپ اس خصوصی لفٹ سے اوپر جارہے ہوں تو برابر والی لفٹوں پر لوگوں کا ہجوم آپ کو نظر آتا ہے۔ اگر آپ صبح کے وقت جائیں، جب مفت علاج ہوتا ہے، تو صرف محاورے میں نہیں، عملاً کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، سرکار اسپتالوں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔ ان معاملات کو بہتر بنانے کی بجائے یہ ایگزیکٹیو کلینک کھول دیا گیا ہے، اور ایک سرکاری اسپتال میں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں؟ جب آپ مہنگا علاج کریں گے تو وہ جو مفت کا علاج ہے اس کی تو تباہی ہو ہی جائے گی۔ کبھی کسی نے سوچا؟
ایک سوال۔ کیا یہ کوئی غیر اہم معاملہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے لوگ تو روز ہی مرتے ہیں۔ مگر یہ ایک ظالمانہ رویہ ہوگا، ان سب کا جن کا کوئی تعلق اس طرح کے معاملات سے بنتا ہے، ڈاکٹر، اسپتال، انتظامیہ، اور بلا شبہ ذرائع ابلاغ۔ اس خاتون کی موت کی خبر ایک آدھ اخبار میں چھوٹی سی شائع ہوئی، اور نظرانداز کردی گئی۔ کیا فرق پڑتا ہے، ایک عورت اگر مرگئی تو اس سے ملک کے حالات پر کیا اثر پڑے گا۔ ملک کے حالات کا تعلق تو ان مباحث سے ہے جو اخبارات کے کالموں اور چینلوں کے ٹاک شوز میں ہوتے ہیں۔ ان مباحث سے مگر عام آدمی کا کوئی تعلق ہے نہ اس کی زندگی بہتر ہونے کے امکانات۔ ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم تھوڑا سا زمین پر آجائیں؟ عام لوگوں، مجید لاہوری کے رمضانیوں ، کے مسائل پر بھی بات کر یں ؟ کیا ہم بار بار اس طرف توجہ دلاسکتے ہیں کہ تھر میں تقریباًروزانہ کئی بچّے کم خوراک ملنے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں؟ لاڑکانہ میں بھی نومولود بچّے آئے دن مرتے ہیں۔ ان کی غریب مائوں کو مناسب خوراک نہیں ملتی، بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں، اور جب انہیں اسپتال لایا جاتا ہے تو وہاں کبھی آکسیجن نہیں ہوتی ،کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ اندرونِ سند ھ ہو یا ملک کے دوسرے دوردراز علاقے سب جگہ یہی بری حالت ہے، اور ہم سے، آپ سب سے توجہ کی طالب۔ یا ہم صرف ان معاملات پر گفتگو کریں گے جن سے سڑک پر پیدل چلنے والوں، جھگیوں اور کچی بستیوں میں رہنے والوں، اسپتالوں میں دھکے کھاتے، دم توڑنے والوں، بھوک پیاس سے تڑپتے اور جان دیتے بچوں کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ ٹھیک ہے وہ بھی شاید اہم معاملات ہوں، ان کو بھی توجہ چاہئے ہوگی۔ مگر وہ سب کچھ ایک بہت چھوٹے طبقے کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ باقی ساری قوم کو کچھ اور مسائل کا سامنا ہے۔ ان پر بھی بات ہو اور ان کا حل بھی تلاش کیا جائے۔

تازہ ترین